جمعه 15/نوامبر/2024

ابو عاقلہ کو لگنے والی گولی کا معمہ؛ اسرائیلی فریب کو امریکی پشت پناہی

پیر 4-جولائی-2022

امریکی حکام نے اپنی تحقیقات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیلی پوزیشنوں کی طرف سے فائرنگ ہی سے الجزیرہ کی صحافیہ شیرین ابوعاقلہ کی موت واقع ہوئی ہوگی لیکن ساتھ ہی انھوں نے کہا ہے کہ اس بات کایقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ ان پر فائرنگ جان بوجھ کر کی گئی تھی۔

یہ بات امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پیر کے روز ایک بیان میں کہی ہے۔انھوں نے یہ انکشاف ایسے وقت میں کیا ہے جب امریکا نے اپنی تحقیقات کے بعد کہا کہ ابوعاقلہ کی لاش سے برآمد ہونے والی گولی کےامریکی نگرانی میں ’بے نتیجہ‘ ٹیسٹ کیے گئے ہیں اور’’آزاد، فریق ثالث کے ممتحن‘‘نے’’انتہائی تفصیلی فرانزک تجزیہ‘‘کیاہے۔

پرائس نے بیان میں کہا کہ بیلسٹک ماہرین نے تعیّن کیا کہ گولی کو بری طرح نقصان پہنچا ہے جس سے واضح نتیجہ نہیں نکلا کہ گولی کس نے چلائی تھی؟

الجزیرہ ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی معروف نامہ نگارابوعاقلہ کو فلسطینی قصبے جینین میں 11 مئی کو اسرائیلی فوج کی چھاپا مارکارروائی کے دوران میں گولی مارکرموت کی نیند سلادیا گیا تھا۔فلسطینی قیادت نے اسرائیلی فوج پر صحافیہ کو قتل کرنے کا الزام عاید کیا تھا۔

ویڈیوفوٹیج میں 51 سالہ ابوعاقلہ کوجیکٹ پہنے دکھایا گیا تھا۔اس پر’’پریس‘‘ کا لفظ واضح طورپرنظرآ رہا تھا لیکن اسرائیل نے ان کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔فلسطینی اتھارٹی نے اپنی تحقیقات کے بعد کہا تھا کہ انھیں ایک اسرائیلی فوجی نے’’جان بوجھ کر قتل‘‘ کرنے کے لیے گولی ماری تھی۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینی عسکریت پسندوں کے خلاف پیچیدہ کارروائی کے دوران میں ماری گئی تھیں اور گولی کا صرف فرانزک تجزیہ ہی اس بات کی تصدیق کرے گا کہ ان پراسرائیلی فوجی نے فائرکیا تھا یا کسی فلسطینی عسکریت پسند نے؟

اس نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ صحافیہ کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا تھا۔البتہ اس کا کہنا ہے کہ کسی اسرائیلی فوجی نے کسی عسکریت پسند کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے کے دوران میں انھیں غلطی سے مار دیا ہوگا۔

پرائس نے کہا کہ امریکی سکیورٹی حکام نے فلسطینی اور اسرائیلی تحقیقات کے نتائج کا الگ الگ جائزہ لیا تھا اور’’یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ممکنہ طور پر شیرین ابوعاقلہ کی موت کی ذمہ داراسرائیلی مسلح افواج کی طرف سے کی گئی فائرنگ ہے‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’امریکا کو اس بات کا یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ملی کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیاتھا بلکہ فلسطینی دھڑے اسلامی جہاد کے خلاف اسرائیلی فوج کی قیادت میں فوجی کارروائی کے دوران میں افسوس ناک حالات میں قتل کا یہ واقعہ پیش آیا تھا‘‘۔

اسرائیلی فوج نے ان نتائج کواپنی تحقیقات کے ایک حصے کے طور پرایک بیان میں پیش کیا ہے جس سے فلسطینی اتھارٹی ناراض ہونے کا امکان تھا کیونکہ اس نے واقعے کی تحقیقات میں کسی بھی اسرائیلی کردار کوسختی مسترد کردیا تھا اورابوعاقلہ کو لگنے والی گولی اسرائیلی حکام کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا۔

صہیونی فوج کا کہنا تھا کہ اگرچہ گولی اس سارے عمل کے دوران میں امریکی حکام کی تحویل میں رہی ہے لیکن اسرائیلی ماہرین ہی نے اسرائیل کی فرانزک لیبارٹری میں اس کا معائنہ کیا ہے۔

اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ آرمی چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل ابیب کوہافی نے تحقیقات جاری رکھنے کا حکم دیا ہے اور فوجداری تحقیقات شروع کرنے کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ آپریشنل تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی کیا جائے گا۔

واشنگٹن کی جانب سے ان کی موت کے واقعے کی تحقیقات کے نتائج کے اجراء کے بعد اسرائیلی فوج نے واضح کیا ہے کہ امریکی نہیں بلکہ اسرائیلی ماہرین نے اس گولی کا بیلسٹک معائنہ کیا جس کے لگنے سے الجزیرہ کی صحافیہ شیریں ابوعاقلہ ماری گئی تھیں۔

اس گولی کا اسرائیل کی فرانزک لیبارٹری میں بیلسٹک معائنہ کیا گیا۔اس کے علاوہ اسرائیلی ماہرین نے اس ہتھیار کا بھی معائنہ کیا ہے جہاں سے اسے فائر کیا گیا تھا تاکہ ان دونوں کے درمیان کسی قسم کے تعلق کا تعیّن کیا جاسکے۔ فوج نے بیان میں کہا ہے کہ اس پورے عمل کے دوران میں امریکی نمائندے موجود تھے۔

اسرائیل کے تحفظ کا الزام

واضح رہے کہ فلسطینی اتھارٹی اورالجزیرہ نے اسرائیلی فورسزپرالزام عاید کیا تھا کہ انھوں نے ابوعاقلہ کوجان بوجھ کر نشانہ بنایا تھا۔امریکی خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے فلسطینی عینی شاہدین بشمول اپنےعملہ کے بیانات کی روشنی میں کہا تھا کہ اسرائیلی فورسزہی نے شیرین ابوعاقلہ پرگولی چلائی تھی جس سے ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔

اس کے بعد امریکی نشریاتی ادارے سی این این، نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کی تحقیقات میں بھی یہی نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ فلسطینی نژاد صحافیہ کو اسرائیلی فوج نے قتل کیا تھا۔

دریں اثناء تنظیمِ آزادیِ فلسطین (پی ایل او) کے ایک سینیرعہدہ دار نے امریکا پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو تحفظ مہیا کررہا ہے اور وہ گولی کے فرانزک معائنے میں اس کے منبع کے بارے میں کوئی ٹھوس نتیجہ اخذ کرنے میں ناکام رہا ہے۔

پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن واصل ابویوسف نے رائٹرزکو بتایا کہ حقیقت واضح ہے لیکن امریکی انتظامیہ اس کے اعلان میں مسلسل گومگو کا شکارہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اسرائیل نے شیریں ابوعاقلہ کو قتل کیا اور اس نے جو جرم کیا ہے،اس کا ذمے داراس کو ضرور ٹھہرایا جانا چاہیے۔

فلسطینی اتھارٹی کے ایک اور سینیرعہدہ دار حسین الشیخ نے بھی ابوعاقلہ کے قتل کی’’سچائی چھپانے‘‘کی کوششوں کی مذمت کی۔انھوں نے کہا کہ ہم بین الاقوامی عدالتوں میں اپنا طریق کار جاری رکھیں گے۔

حسین الشیخ نے ٹویٹر پر لکھا کہ ’’ہم سچائی کو چھپانے یا اسرائیل کی طرف شرمندگی کے سے انداز میں الزام کی انگلی اٹھانے کی کوشش نہیں کرنے دیں گے‘‘۔

امریکی تحقیقات کے نتائج پررد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسرائیلی وزیردفاع بینی گینزنے کہا کہ ’’فائرنگ کے ذرائع کا تعیّن کرنا ممکن نہیں۔اس لیے اس کے حتمی نتیجہ تک تحقیقات جاری رہیں گی‘‘۔

امریکی تحقیقات کی مذمت

الجزیرہ کی صحافیہ ابوعاقلہ کے اہل خانہ نے امریکا کی مذکورہ بے نتیجہ اورغیریقینی تحقیقات کی مذمت کی ہے۔

فلسطینی نژاد ممتازامریکی صحافیہ کے اہل خانہ کی جانب سے یہ مذمت اس وقت سامنے آئی ہے جب اسرائیل نے کہا کہ اس کے ماہرین نے امریکیوں کے بجائےابوعاقلہ کی موت کا سبب بننے والی گولی کا معائنہ کیا ہے۔

ابوعاقلہ کے خاندان نے ایک بیان میں کہا کہ محکمہ خارجہ کا 4 جولائی کو یہ اعلان بھی کوئی کم نہیں کہ ایک امریکی شہری کی جان لینے والی گولی کا جائزہ بےنتیجہ رہا ہے کیونکہ جس بندوق سے وہ گولی چلائی گئی تھی ،امریکی حکام اس کی اصلیت کے بارے میں ناقابلِ یقین ہیں۔

بیان میں مزیدکہا گیا ہے کہ ’’ہم شیرین کے قتل کےانصاف کی وکالت جاری رکھیں گے اوراسرائیلی فوج اور حکومت کا احتساب کریں گے، چاہے 11مئی کوجو کچھ ہوا،اس کی حقیقت کوختم کرنے کی کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کی جائیں‘‘۔

فلسطینی اتھارٹی نے گذشتہ ہفتے کے روزابوعاقلہ کے جسم سے نکالی گئی گولی امریکی نمائندوں کودی تھی۔انھیں جب سرمیں گولی لگی تھی توانھوں نے’’پریس‘‘کے نشان والی واسکٹ اور ہیلمٹ پہنا ہوا تھا۔محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہاکہ امریکا اس گولی کے منبع کے بارے میں کوئی ’’حتمی نتیجہ‘‘ اخذ نہیں کرسکتاکہ یہ کس نے چلائی تھی۔

مختصر لنک:

کاپی