حال ہی میں اسرائیلی حکومت نے فلسطینی اتھارٹی کو واجب الاداء ٹیکسوں کی بھاری رقم کی ادائیگی روکنے کا فیصلہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ رقم اسرائیل کے خلاف لڑتے ہوئے مارے جانے والے فلسطینیوں کے خاندانوں اور اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے اہل و عیال کی کفالت پر خرچ کی جاتی ہے۔ اس لیے فلسطینی اتھارٹی کو یہ رقم ادا نہیں کی جائے گی۔ انسانی حقوق کی تنظیموںنے اسرائیل کے اس انتقامی حربے کو غیر انسانی، سفاکانہ اور نسل پرستانہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس اقدام کا مقصد مظلوم فلسطینیوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کی بھونڈی کوشش ہے۔
حال ہی میں اسرائیلی حکومت نے فلسطینی شہریوں پر معاشی دبائو ڈالنے کے لیے ایک نیا قانون منظور کیا۔ اس قانون کے تحت قرار دیا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے خلاف لڑنے والے فلسطینیوں کی جائیدادیں ضبط کرنے، اُنہیں جیلوں میں قید کرنے اوراُنہیں بھاری جرمانوں کی سزائیں دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس قانون کے تحت بیرون اور اندرون مُلک سے ملنے والی مالی امداد کی چھان بین کرنے ساتھ ساتھ تنظیم کی تمام املاک ضبط کرنے، اسے چلانے والے افراد کو حراست میں لینے، انہیں قید کی سزائیں دینے کے ساتھ ساتھ بھاری جرمانے کیے جاتے ہیں۔
اگر ان فلسطینیوں میں سے اگر کوئی قریبی عزیز شہید یا قید ہو اور اس کے خاندان کی کفالت پر 10 ہزار شیکل خرچ کیے گئے ہوں تو ایسے فلسطینی کی 10 ہزار شیکل کے برابرجائیداد ضبط اور اتنا ہی جرمانہ بھی کیا جائے گا۔ فلسطینی اسیران کے امور کے تجزیہ نگار فواد الخفش نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئےاسے ظالمانہ قانون قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی فوج کو اگر کسی فلسطینی کے گھر سے کوئی رقم نہیں ملتی تو گھرمیں موجود دیگر سامان کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ گاڑی چھین لی جاتی ہے اور گھر کے دیگر اثاثہ جات بھی اس آڑ میں چھین لیے جاتے ہیں کہ ان کے پاس یہ سب کچھ خریدنے کے رقم کہاں سے آئی۔
صہیونی انٹیلی جنس ادارے غرب اردن سے ایک فلسطینی شہری کی گاڑی اس سے چھین کر لے گئے۔ حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ اس فلسطینی کا تعلق اتھارٹی کی طرف سے امداد حاصل کرنے والوں میں شامل نہیں۔ صہیونی حکام نے اسے کہاکہ وہ یا تو اپنی گاڑی ہمارے حوالے کردے یا اس کی قیمت کے برابر جرمانہ ادا کرے۔
انسانی حقوق کے مندوبین کا کہنا ہے کہ صہیونی حکام انتقامی کارروائیوں میں سرگرم ہیں۔ ان کے نزدیک وہ فلسطینی جو فلسطینی اتھارٹی سے امداد حاصل کرتے ہیں اور وہ جنہیں کسی قسم کا وظیفہ نہیں دیا جاتا سب برابر ہیں۔ صہیونی حکام جب چاہتے ہیں کسی بھی فلسطینی سے اس کی املاک چھین لیتے ہیں۔
نسل پرستانہ رحجان میں اضافہ
فلسطینی تجزیہ نگار اور قانون دان ساھر صرصور نے مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیت المقدس اور مغربی کنارے میں صہیونی حکام کے ہاتھوں فلسطینیوں کی املاک غصب کرنے کی شکایات میں غیر معمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ صہیونی حکام بغیر کسی قانونی ثبوت کے فلسطینیوں کے گھروں میں گھس کر نقدی، زیورات اور دیگر املاک غصب کر لیتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صہیونی حکام جس کے گھر سے نقدی برآمد کرتے ہیں اسے حراست میں لے لیا جاتا ہے اور یہ الزام عاید کیا جاتا ہے کہ اس نے یہ رقم دہشت گردانہ ذرائع سے حاصل کی ہے۔
اس طرح فلسطینی اپنی قیمتی اشیا، جن میں گاڑیاں، نقدی، زیورات اور قیمتی اثاثہ جات سے محروم ہوجاتے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس اپنی املاک بچانے کوئی ذریعہ نہیں رہا اور نہ ہی ہمار پاس کوئی چارہ کار بچا ہے۔ اسرائیلی فوج ہر ماہ کے آغاز میں شہریوں کے گھروں پر چھاپے مار کر ان سے رقوم کا مطالبہ کرتی ہے اور انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے ملنے والی رقم ہمارے حوالے کر دیں۔ فلسطینی اسیران اور شہداء کے اہل خانہ اور ان کے بیوی بچوں کو بھوکا رکھنے کا یہ نیا اور مکروہ حربہ ہے جو نام نہاد صہیونی جمہوری ریاست کی طرف سے روا رکھا گیا ہے۔