ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ صدارتی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق وہ پہلے مرحلے میں باآسانی جیت گئے ہیں۔
سرکاری میڈیا کے مطابق طیب ایردوان کو 53 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ ان کے قریبی حریف محرم انسے کو 31 فیصد ووٹ ملے ہیں۔
تاہم حزب اختلاف نے صدر ایردوان کے اعلان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ابھی بھی بہت سارے ووٹوں کی گنتی ہونا باقی ہے۔ اس انتخاب میں صدر رجب طیب ایردوان کو دوسری مرتبہ پانچ سال کے لیے صدر بننے یا نہ بننے کا فیصلہ ہونا تھا۔
صدر رجب طیب ایردوان نے اپنی فتح کے اعلان کے ساتھ پارلیمانی انتخابات میں اپنی جماعت اے کے پارٹی کی پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
صدارتی انتخابات کے علاوہ ترکی میں پارلیمانی انتخابات بھی ہوئے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق ابھی تک گنے گئے 96 فیصد ووٹوں میں صدر کی اے کے پارٹی 43 فیصد ووٹوں سے آگے ہے، جبکہ اہم حزبِ اختلاف کی پارٹی سی پی ایچ کے پاس 23ووٹ ہیں۔ سرکاری براڈ کاسٹر کے مطابق ووٹنگ کا تناسب 87 فیصد رہا ہے۔
اتوار کی صبح صدر اردوغان نے اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ اس مرتبہ ووٹروں کا ٹرن آؤٹ زیادہ رہا۔
انھوں نے استنبول میں کہا کہ ’اس الیکشن کے ساتھ ترکی ایک جمہوری انقلاب سے گزر رہا ہے۔‘ صدر اردوغان چاہتے ہیں کہ انھیں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ ملیں تاکہ ووٹنگ دوسرے راؤنڈ میں نہ جائے۔
صدراتی اور پارلیمانی ووٹنگ کا آغاز مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے شروع ہوا۔ اگر صدر ایردوان کی جایت کا سرکاری اعلان ہو جاتا ہے تو انھیں وہ نئے اختیارات حاصل ہو جائیں گے جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے جمہوریت کمزور ہو گی۔