فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے، بیت المقدس اور غزہ کی پٹی کے ہزاروں فلسطینی محنت کش سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں روزی روٹی کمانے جاتے ہیں۔ ان فلسطینی محنت کشوں کو کام کاج کے حصول میں مشکلات کی دل گداز داستان اپنی جگہ مگر یہودی آبادکاروں اور اسرائیل کے سرکاری ملازمین کی ہڑتالیں بھی ان غریب فلسطینی مزدوروں کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔
گذشتہ کئی ماہ سے ہزاروں محنت کشوں کو اسرائیلی ریاست کی ہمہ نوع پابندیوں کے ساتھ یہودی آباد کاروں کی ہڑتالوں کی وجہ سے ان فلسطینیوں کے کام کاج اور آمد ورفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔
غرب اردن کے شمالی شہر جنین کے شمال میں قائم ‘الجلمہ‘ گذرگا غرب اردن اور شمالی فلسطین میں فلسطینی شہریوں کی آمدو رفت کا سب سے مصروف راستہ سمجھا جاتا ہے۔ الجلمہ گذرگاہ سے نہ صرف فلسطینی محنت کش شمالی فلسطینی شہروں میں کام کاج کے لیے جاتے ہیں بلکہ یہ گذرگاہ کاروباری اور تجارتی مقاصد کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔
ایک مقامی فلسطینی شہری امیر ابو فرجہ نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ کئی ماہ سے یہودی آباد کار اور اسرائیل کے سرکاری ملازمین احتجاج اور ہڑتالوں کے ذریعے فلسطینیوں کو ان کی دو وقت کی روزی سے محروم کررہے ہیں۔
صرف یہی نہیں کہ ہزاروں فلسطینی محنت کش اپنے کام پرنہیں جاسکتے بلکہ غرب اردن اور شمالی فلسطین میں کاروباری سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہیں۔ ابو فرحہ نے بتایا کہ وہ ایک دیہاڑ دار مزدور ہیں، وہ جس روز کام پر نہ جائیں ان کا دن ضائع جاتا ہے۔ پچھلے ان کے صرف 14 دن کام پر لگے اور 16 ضائع ہوئے۔ اس سے پچھلے مہینے 12 دن یہودیوں کی عیدوں کی نذر ہوگئے۔ کبھی یہودیوں کے مذہبی تہواروں، کبھی جلسے جلوسوں، ہڑتالوں اور کبھی اسرائیلی فوج کی انتقامی کارروائیوں کے نتیجے میں الجلمہ گذرگاہ بند کردی جاتی ہے، گذرگاہ کی بندش سے ہزاروں فلسطینی محنت کشوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ابو فرحہ کا کہنا ہے کہ کئی بار ایسا ہوا کہ وہ شمالی فلسطین میں اپنے کام کے لیے الجلمہ گذرگاہ پہنچے تو انہیں وہاں روک لیا جاتا اور پورا پورا دن وہاں روکے رکھا جاتا، وہ نہ گھر لوٹ پاتے اور نہ انہیں کام پر جانے کی اجازت دی جاتی۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق گذشتہ ہفتے کے روزاسرائیل کے گذرگاہوں پر تعینات اہلکاروں اور سرکاری ملازمین نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرتے ہوئے ہڑتال کردی اور گذرگاہ کو بند کردیا گیا جس کے نتیجے میں کئی روز سے 70 ہزار سے زاید فلسطینی محنت کش ، مزدور، کسان اور کاروباری لوگ متاثرہوئے ہیں۔
عبرانی نیوز ویب پورٹل ’وللا‘ کے مطابق گذرگاہ اتھارٹی کے ملازمین نے ہڑتال اس وقت شروع کی جب ان کے حکومت کے ساتھ اپنے مطالبات کے حوالے سے مذاکرات ناکام ہوگئے۔ ان ملازمین نے اپنے کام کے حالات کو بہتر کرنے اور مزید سہولیات کے لیے حکومت سے مطالبہ کیا تھا مگر حکومت نے ملازمین کا احتجاج مسترد کردیا۔
عبرانی نیوز ویب پورٹل کا کہنا ہے کہ الجملہ گذرگاہ کی بندش سے غرب اردن اور دوسرے فلسطینی علاقوں کے70 ہزار فلسطینی اپنے ڈیوٹیوں پر نہیں جا سکے ہیں۔
فلسطینی ذرائع ابلاغ کے مطابق الجلمہ گذرگاہ کا کنٹرول اسرائیلی فوج کےساتھ ساتھ صہیونی ریاست کی پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیوں کے پاس ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے نجی سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی طرف سے تنخواہوں میں اضافے اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لیے احتجاج شروع کیا گیا تھا۔ 24 ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو ان ملازمین نے ہڑتال شروع کردی تھی۔
فلسطینی زراعت پر کاری ضرب
الجلمہ گذرگاہ کی بندش کے نتیجے میں کسی ایک فلسطینی شعبے کا نقصان نہیں ہو رہا۔ محنت کشوں اور دیہاڑی دار طبقے کو پہنچنے والے نقصان کے ساتھ ساتھ الجلمہ گذرگاہ کی بندش سے غرب اردن کے کسان پیشہ افراد کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ غرب اردن میں اگائی جانے والی سبزیوں کی بڑی مقدار شمالی فلسطین میں لے جائی جاتی ہے مگر گذرگاہ کی بندش اور گاڑیوں کے بند ہونے کے باعث سبزیاں خراب ہوجاتی ہیں اور فلسطینی کسانوں کو بے پناہ مالی نقصان ہوتا ہے۔
ایک مقامی فلسطینی کسان انس جرادات نے مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ غرب اردن میں کسان بڑی مقدار میں کھیرا کی کاشت کرتے ہیں۔ مقامی سطح پر کاشت کیے گئے کھیرے کو برقت شمالی فلسطینی علاقوں سپلائی نہ کیے جانے کے نتیجے میں فصل تباہ ہوجاتی ہے اور اس کا فلسطینی کسانوں کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گذرگاہ کی بندش کے نتیجے میں مقامی سطح پر سبزیوں کی قیمتیں نصف تک گر جاتی ہیں، اس کا عام لوگوں کو فائدہ ہوتا ہوگا مگر کسان لٹ جاتے ہیں۔
یہی پریشان کن حالات تاجر برادری کے ہیں۔ الجلمہ گذرگاہ کی بندش سے جہاں شمالی فلسطین میں سامان تجارت کی آمد و ترسیل پر پابندی لگ جاتی ہے وہیں غرب اردن کے تاجروں کو بھی غیرمعمولی نقصان پہنچتا ہے۔
گارمنٹس کے ایک مقامی فلسطینی تاجر امجد شہاب نے اپنا دکھڑا بیان کرتے ہوئے کہا کہ گذرگاہیں فلسطینی تاجروں کی اقتصادی شہ رگ ہیں۔ ان کی اس طرح بندش سے نہ صرف فلسطینی تاجر بلکہ دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے شہری بھی متاثر ہوتے ہیں۔