اسرائیلی حکام نے زیر قبضہ مغربی کنارے کے شمال میں واقع جنوب نابلس کے قریوت اور ساویہ نامی قصبوں کی جگہ یہودی بستی کے قیام کے ایک منصوبے کی منظوری دی ہے۔
انسانی حقوق کے ذرائع نے بتایا ہے کہ قابض حکام نے فلسطینیوں کی ملکیتی زرعی اراضی کا بہت بڑا رقبہ ہتیھا کر یہودی بستیوں کی تعمیر کے منصوبے کے لیے مختص کر دیا ہے۔
یہودی بستیوں کی تعمیر کے منصوبے پر گہری نظر رکھنے والے فلسطینی عوامی نمائندے بشار قریوتی نے کہا کہ اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے باضابطہ طور پر اعلان کر کے ان اراضی پر قبضے اور تعمیرات کی منظوری دی ہے۔ اسرائیلی حکام کا یہ اقدام قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے
انہوں نے کہا کہ قانون اداروں پر دست درازی کرنے اور فلسطین کی زمین پر ناجائز قبضے کو قانونی شکل دینے کی ناپاک جسارت کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
بشار قریوتی نے انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس گھناؤنے اقدام کے خلاف آواز بلند کریں اور اس کے سدِباب کی کوششوں میں فلسطینیوں کا بھر پور ساتھ دیں۔
قریوت کے باسیوں اور کاشتکاروں میں اس وقت شدید ردعمل دیکھنے میں آیا جب انہوں نے، انسانی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے قابض فوجیوں کو اپنے ابا و اجداد کے برسوں قبل لگائے گئے درختوں کو بے دریغ کٹتے دیکھا۔
رومی زیتون کی کاشت کے نو فلسطینی زرعی فارمز کو ملا کر یہاں اب یہودی بستی عیلیت بسا دی گئی ہے. اسی طرح قریوت کے جنوب میں ایک اور یہودی بستی شیلو آباد کی گئی ہے اور شیلو کو اسرائیلی اپنے مقدس مقامات میں شمار کرنے لگی ہیں، چنانچہ یہاں انہوں نے اپنے کئ عبادت خانے تعمیر کر لیے ہیں۔
اسرائیل حکام فلسطینی باشندوں کو اپنی آبائی زمینوں سے بے دخل کرنے اور فلسطین کی زرعی اراضی کو اپنے قبضے میں لینے کے لیے طرح طرح کے ناجائز ہتھکنڈے إستعمال میں لا رہی ہیں۔
اہل فلسطین اور اہل قریوت اپنے حق کی بازیابی کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ بار ہا اپنے حق کو بازیاب کروانے میں کامیاب ہوے ہیں۔ گذشتہ پانچ سالوں کے دوران انہوں نے زیتون کی کاشت کے لیے استعمال میں لائی جانے والی اپنی 800 ایکڑ زمین بازیاب کروا کر دم لیا۔