اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی بیورو کے رکن اور جماعتکے عرب اور اسلامی تعلقات کے دفتر کے سربراہ خلیل الحیہ نے کہا کہ فلسطین میںبالعموم اور غزہ میں بالخصوص ’طوفان الاقصیٰ‘ کو ایک سال گزر چکا ہے۔ہمارے فلسطینی عوام اپنیمزاحمت، خون اور استقامت کے ساتھ ایک نئی تاریخ لکھ رہے ہیں۔اپنے خون سے اپنیآزادی کی تحریک کی آبیاری کا سفر1948ء میں القسام مجاھدین نے شروع کیا۔ ساتاکتوبر 2023ء اس طویل جدو جہدکا ایک اہم مرحلہ ہے جس نے ایک بار پھر فلسطینی کاز کوپوری دنیا میں زندہ کیا ہے۔
الحیہ نے اتوار کے روز ’طوفان الاقصیٰ‘ کا ایک سال مکملہونے کے موقع پر ایک پریس بیان میں مزید کہا کہ ”مجاہدین کی جماعت چند گھنٹوں کے اندر اسرائیلی وجود کو گھٹنے ٹیکنےمیں کامیاب ہو گئی۔ اس کے اہم ترین فوجی ڈویژنوں کو بے اثر کر کے انہیں ہلاک، گرفتاراور زخمی کر دیا اور القسام کے بیٹے اور مزاحمتی دھڑے اب بھی انتہائی شاندار لڑائیاںلڑ رہے ہیں اور وہ اپنے خاندانوں اور عزیزوں کا دفاع اور حفاظت کر رہے ہیں۔
غزہ، مغربی کنارے، القدس، اندرون ملک اورتارکین وطن کے لیے پیغامات
انہوں نے مزید کہا کہ "غزہ میں ہمارےعوام فخر، صبر اورقربانی کے معانی کا سب سے بڑا مظہر ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ آپ ثابت قدم اور سخیلوگ ہیں، شہداء اور زخمیوں کی یہ عظیم قربانیاں، گھروں، مکانوں، مساجد، یونیورسٹیوںاور انفراسٹرکچر کوتباہ کرنے کے باوجود جاری ہیں۔ فلسطینی عوام جس کرب اور تکلیفسے گذر رہے ہیں اس کا انجام فلسطینی ریاست کی آزادی ہے۔
الحیہ نے مزید کہا کہ "مغربی کنارے میں ہمارے لوگ مزاحمتکر رہے ہیں۔ ان کے بہتے خون، زخموں اور بستیوں کےاجڑنے کے باوجود وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔قابض فوج شہروں، دیہاتوں اور کیمپوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہی ہے اور فلسطینی عوام کھلیجارحیت کا سامنا کررہے ہیں۔ ان کی زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں، اندرون فلسطین کےعلاقوں سے تعلق رکھنے والوں اور بیرون ملک فلسطینی تارکین وطن کی قربانیوں کو خراجتحسین پیش کیا۔
انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری جدوجہد کرنےوالے فلسطینی عوام، اس عظیم قومی بہادری کا آغاز ایسے وقت میں ہوا جب فلسطین ایکفراموش شدہ مسئلہ بن چکا تھا، سربراہی اجلاسوں اورکانفرنسوں کے فیصلوں میں مسئلہفلسطین غائب تھا اور صہیونی ریاست پے درپے ممالک کو اپنے ساتھ ملا رہی تھی۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ "طوفان الاقصیٰ‘ اس وقت پیش جب قابض دشمن خطے میں تباہی مچا رہا تھا۔اس کے لوگوں کی دیواروں میں گھس رہا تھا، سکیورٹی، فوجی اور اقتصادی معاہدوں کوانجام دے رہا تھا ایسے اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو اسے بااختیار بنانےاور غلبہ حاصل کرنے کے لیے مدد گار تھے۔
انہوںنے کہا کہ "ہم آج پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین دنیا کانمبر ون مسئلہ بن گیا ہے۔ سب نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جب تک ہماری قوم کو مکمل حقوقنہیں ملیں گے، اس وقت تک خطے میں سلامتی یا استحکام نہیں ہوسکتا، اور ہم دہراتے ہیںاور سب سے کہتے ہیں کہ خطے میں اس وقت تک کوئی سلامتی یا استحکام نہیں ہے جب تک فلسطینآزاد نہیں ہوتا۔ امن ، سلامتی، استحکام اور خوشحالی کا راستہ آزاد فلسطینی مملکتسے گذرتا ہے‘‘۔