ہر صبح سات بجے بارہ سال کا احمد جنوبی غزہ میں خان یونس کے کھنڈرات کی طرف جاتا ہے، اور مسلسل اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہر طرف موجود ملبے کے ڈھیروں کو کھنگالتا ہے۔
"ہم تباہ شدہ گھروں سے ملبہ اکٹھا کرتے ہیں، پھر پتھروں کو کوٹتے ہیں اور بجری کی ایک بالٹی تقریباً ایک شیکل میں بیچتے ہیں”، یہ کہنا تھا 12 سالہ بچے کا، جس کا چہرہ دھوپ سے تپا ہوا تھا، اس کے ہاتھوں پر خراشیں تھیں اور کپڑے دھول میں اٹے ہوئے تھے۔
لیکن اس کے خریدار کون ہیں؟
اس کا جواب جنگ کے ایک اور انتہائی المناک پہلو کی نشاندہی کرتا ہے۔ احمد نے کہا کہ اس کے گاہک وہ غمزدہ خاندان ہیں جو اپنے پیاروں کی قبروں کے اوپر نشان یا کتبے لگانے کے لیے بجری کا استعمال کرتے ہیں، جن میں سے اکثر کو عجلت میں دفن کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا، "دن کے اختتام پر، ہم دو یا تین شیکل کماتے ہیں، جو بسکٹ کے ایک پیکٹ کے لیے بھی کافی نہیں ہیں۔”
اس نے حسرت سے کہا،”ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کا ہم خواب دیکھتے ہیں لیکن اپ لے نہیں سکتے۔”
عالمی بینک نے مئی میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا کہ "غزہ کا تقریباً ہر شہری اس وقت غریب ہے۔”
خطرناک ملبہ اور ننگے پاؤں بچے
غزہ میں چائلڈ لیبر کوئی نئی بات نہیں ہے جہاں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگ سے پہلے بھی دو تہائی آبادی غربت میں رہتی تھی اور 45 فیصد افرادی قوت جنگ سے پہلے بھی بے روزگار تھی۔
غزہ کی تقریباً نصف آبادی 18 سال سے کم عمر ہے، جبکہ فلسطینی قانون میں سرکاری طور پر 15 سال سے کم عمر کےبچوں کے کام کرنے کی ممانعت ہے لیکن بچے 7 اکتوبر سے پہلے بھی زراعت اور دیگر شعبوں میں کام کرتے دیکھے جا سکتے تھے۔
جنگ کے دوران ہونے والی وسیع تباہی کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حملوں اور انخلاء کے احکامات سے آگے رہنے کی کوشش کرنے والے غزہ کے باشندوں کی مسلسل نقل مکانی نے اس قسم کی مستقل محنت تلاش کرنا بھی مشکل بنا دیا ہے۔
16 سالہ خامس اور انکا تیرہ سالہ چھوٹا بھائی سمیع، اس کے بجائے سارادن اونچے نیچے گڑھوں والی گلیوں میں چلتے ہوئے اور پناہ گزین کیمپوں میں جوس کے کارٹن بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خامس نے اے ایف پی کو بتایا، "ملبے سے ننگے پاؤں چلنے سے میرے بھائی کی ٹانگ بم کا تیز دھار والا ٹکڑا لگنے سے زخمی ہوگئی ہے۔”
اس سے بتایا "اسے بخار ہے، پورے بدن پر دھبے تھے، اور ہمارے پاس اس کے علاج کے لیے کوئی دوا نہیں ہے۔”
امدادی کارکن بارہا صحت کے ایک ایسے نظام کے بارے میں خطرات سے آگاہ کرچکے ہیں جو جنگ سے پہلے ہی جدوجہد کر رہا تھا اور اب وہ زخمیوں اور بچوں میں بڑھتی ہوئی غذائی قلت کا شکار ہونے والوں سے نمٹنے کے قابل نہیں ہے۔
حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی جوابی فوجی مہم میں غزہ میں کم از کم 40476 افراد شہید ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ شہدا میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
کمایا ہوا پیسہ ‘ایک منٹ میں’ چلا گیا
خمیس اور سمیع اپنی بقا کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بہت کم رقم کمانے میں کامیاب ہو تے ہیں۔
اس خاندان نے، جب وہ پہلی بار اپنے گھر سے بیدخلی پر مجبور ہوئے گدھا گاڑی کرائے پر لینے کے لیے 300 شیکل (تقریباً 73 یورو) خرچ کیے، اور بعد میں ایک خیمے پر 400 شیکل خرچ ہوئے۔
خامس نے کہا کہ اس مقام پر ہماراخاندان تقریباً 10 بار نقل مکانی کر چکا ہے اور "25 شیکلز میں ایک کلو ٹماٹر” برداشت کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
ایک اور بچے معتصم نے کہا کہ وہ بعض اوقات کافی اور خشک میوے بیچ کر "ایک دن میں 30 شیکل” کما لیتے ہیں جو وہ سڑک کے کنارے بیچتے ہیں۔
13 سالہ بچے نے کہا، "میں نے یہ رقم جمع کرنے کے لیے گھنٹوں دھوپ میں گزارے، اور ہم نے اسے ایک منٹ میں خرچ کردیا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ "بعض دنوں میں میں صرف 10 شیکل ہی کما پاتا ہوں جب کہ میں گاہکوں کو بلانے کے لیے سارا دن چیختا رہتا ہوں۔”
بہرحال ان بچوں کی مشقت کی کمائی ایک ایسے علاقے میں روزمرہ کے اخراجات کے لیے سمندر میں بوند برابر ہے جہاں کھانا پکانے کی گیس اور پٹرول جیسی اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔
معتصم نے کہا کہ ان حالات میں، "ہم صرف اپنی بنیادی ضروریات کے بارے میں سوچتے ہیں، ہم بھول چکے ہیں کہ چین سے بیٹھنا یا اپنی خوشی کے لیے خرچ کرنا کیا ہوتا ہے۔”
"میں واپس اپنے گھر اپنی پرانی زندگی میں جانا چاہتا ہوں۔”