بیت المقدس کےامور کے تجزیہ نگار اور محقق زیاد ابحیص نے کہا ہے کہ قابض اسرائیل مسجد اقصیٰ کویہودیانے اور اس کے اسلامی تشخص کو مٹانے کے لیے تین مختلف منصوبوں پرعمل پیرا ہے۔
مرکزاطلاعاتفلسطین کو دیئےگئے انٹرویو میں ابحیص کا کہنا تھا کہ مسجد اقصیٰ کے حوالے سےاسرائیل اور یہودی آبا کاروں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کا مقصد مسجداقصیٰ کے بابرکت وجود کو مٹانا اور اس کی جگہ انتہا پسند صہیونی بیانیے کے مطابقمزعومہ ہیکل سلیمانی کے قیام کی راہ ہموار کرنا ہے۔
تین مراحل پرمبنی سازشی منصوبہ
ایک سوال کے جوابمیں زیاد ابحیص نے کہا کہ اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کے وجود کو مٹا کراس کی جگہ ہیکلسلیمانی کے اپنے مذموم منصوبے تک پہنچنے کے لیے تین مراحل پر مشتمل منصوبہ تیارکیا ہے۔ پہلا منصوبہ مسجد اقصیٰ کی زمانی اعتبار سے تقسیم ہے۔ یہ سازش سنہ 2003ء سے 2015ء تک جاری رہی۔ اس عرصےمیں یہودی آباد کاروں کے مسجد اقصیٰ پر دھاووں کے تناسب میں مسلسل اضافہ ہوتارہا۔ آباد کار اور انتہا پسند صبح اور شام کے اوقات میں مسجد اقصیٰ پر دھاوابولتے، انہیں یہودیوں کے مذہبی تہواروں کے موقعے پربھی قبلہ اول میں گھسنے کیاجازت دی جاتی اور اسرائیلی فوج انہیں فول پروف سکیورٹی مہیا کرتی۔ اس دوران یہہتھکنڈہ اختیار کیا گیا کہ یہودیوں کے مذہبی تہواروں کے موقعے پر فلسطینیوں کومسجد اقصیٰ میں داخلے کی اجازت نہ دی جاتی۔
قبلہ اول کویہودیت میں تبدیل کرنے کا دوسرا صہیونی مرحلہ یا منصوبہ مسجد کی مکانی تقسیم ہے۔مکانی تقسیم سے مراد مسجد اقصیٰ میں یہودی آباد کاروں کے لیے مذہبی رسومات کیادائی کی جگہ مختص کرنا ہے۔ اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کے جنوب مغربی حصے کو یہودیآباد کاروں کے لیے مختص کیا ہے۔ یہ جگہ مراکشی دروازے کے قریب ہے اور یہودی آبادکار اسی دروازے سے قبلہ اول میں گھستے ہیں۔
سنہ 2008ء میں فلسطینیوں نےصہیونی ریاست کی اس سازش کو ناکام بنا دیا تھا مگر قابض دشمن نے اپنے مشن کو آگےبڑھانے کے لیے 2015ء میں اسلامیتحریک پرپابندی عاید کردی تھی۔ یہودیوں کی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیےفلسطینی کئی بار مزاحمتی مہمات چلا چکے ہیں۔ ان میں سنہ 2019ء کی باب رحمت مہم بھی شامل ہے۔
مسجد اقصیٰ میں توراتی رسومات کی منتقلی
زیاد ابحیص نےکہا کہ "پہلی لائن بائبل کی رسومات کو منتقل کرنا ہے جو دنیا کے تمام معابد میںاور بابرکت مسجد اقصیٰ کے باہر ادا کی جاتی ہیں۔اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ ثابت کیاجائے کہ مسجد اقصیٰ یہودیوں کا مذہبی مرکز ہے۔
دوسری لائن بائبلمیں نام نہاد ہیکل کے انہدام کے دور سے اختیار کردہ رسومات کی منتقلی ہے۔ ان میںالملحمی سجود، قربانی کرنا،کہنہ طبقہ کا احیا اور وہاں پر عبادت کی دیگر شکلیں اوررسمیں ادا کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، وہ تیسرا مرحلہ ہے، جو بائبل کی رسومات کو مسجداقصیٰ میں منتقل کرنے کی کوشش ہے، اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اوراس کا مقابلہکرنے کی ضرورت ہے۔
تصادم کے طریقوںکے بارے میں فلسطینی تجزیہ نگار نے کہا کہ وہ مذہبی تعطیلات پر ان رسومات کو عملیطور پر ناکام بنا رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان عبادات کو منتقلکریں اور انہیں عیدوں اور مقدس دنوں میں انجام دیں۔اس لیے اگر وہ عیدوں کے دوران ایساکرنے میں ناکام رہیں، اسے مذہبی تعطیلات سے باہر کرنا ان کے لیے کوئی معنی نہیںرکھتا۔
یہودیوں کیدراندازی روکنے کے لیے رباط
مسجد اقصیٰ کےنمازیوں اور مرابطین کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے زیاد ابحیص نے زور دیا کہمسلمان ہونے کے ناطے’رباط‘ قبلہ اول کے دفاع اور انتہا پسند یہودیوں کی مجرمانہدراندازی روکنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ دوستانہتعلقات کے قیام کی مہم، فلسطینیوں کی مزاحمت میں کمزوری میں آخری درجہ رباط ہی کاہے جس میں فلسطینی نمازی مسجد اقصیٰ سے یہودیوں کی دراندازی روک سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہرباط اجتماعی ہویا انفرادی گذشتہ چار دہائیوں سے یہودیوں کی قبلہ اول میں دراندازیمیں ایک موثر رکاوٹ رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ معرکہ سیف القدس سے قبل اور سنہ1990ء کے مسجد اقصیٰ کے قتلعام کے درمیان آٹھ بار قبلہ اول کے دفاع کی تحریکیں مسجد اقصیٰ کے اندر اور اس کےاطراف میں برپا ہوئیں۔