اسلامی تحریک مزاحمت[حماس] کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے زوردے کر کہا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں پابند سلاسل فلسطینی قیدیوںکا مسئلہ حماس اور فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے ایجنڈے کے لیے اولین ترجیح تھا، ہےاور رہے گا۔
ہنیہ نے منگل کیشام الاقصیٰ ٹی وی سے نشر کی گئی ایک مختصر تقریر میں کہا کہ ہم اس موقع پر اپنے قیدیوںسے عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے قیدی بہن بھائیوں کی دشمن کی قید سے رہائی اور آزادیکے لیے ہرسطح پر جدو جہد جاری رکھیں گے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ ہم ایک بڑے منصوبے کے تنازع اور اس قابض دشمن کے ساتھ خواہشات کے تصادم کےدرمیان ہیں لیکن ہماری قوت ارادی مضبوط ہے اور ہمارے لوگوں نے استقامت اور مزاحمتکے جذبے کو تازہ کر دیا ہے۔
انہوں نے اس باتپر تاکید کرتے ہوئے کہ ہماری عوام قیدیوں، القدس، الاقصیٰ اور تمام مقدسات کے ساتھکھڑے ہونے کے لیے پرعزم ہے۔ہم سب چاہتے ہیں کہ قیدی قابض دشمن کی گھناؤنی پابندیوںسے آزاد ہو کر دوبارہ آزادی کی ہوا کا سانس لیں۔ ہمارا ان سے عہد ہے کہ ہم ان کیرہائی کے لیے ہرسطح پر جدو جہد کریں گے۔
ھنیہ نے اس باتپر زور دیا کہ ہمیں مزاحمت کے ذریعے حاصل ہونے والی فتح کے ایک عظیم مرحلے کاسامنا ہے، جس میں سب سے آگے عزالدین القسام بریگیڈز ہیں۔
انہوں نے کہا کہوفا الاحرار ایک تاریخی عہد تھا جس پر مزاحمت، حماس اور غزہ نے پانچ سال سے زیادہعرصے تک جنگ کی، جب کہ انہوں نے دشمن کے قید گیلا شالیت قید کرکے دشمن کی سلامتی اور انٹیلی جنس دماغ کی جنگ میں فتح حاصلکی۔ اس راہ میں عظیم قربانیوں کے باوجود ثابت قدمی دکھا کر دشمن کے ایک قیدی کےبدلے اپنے سیکڑوں قیدی رہا کرائے ۔