فلسطین میںانسانی حقوق کے کارکنوں نے فلسطینی اتھارٹی کی پولیس کے ہاتھوں سیاسی بنیادوں پرسابق قیدیوں اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس معاملے کویورپی یونین میں اٹھانے پر زور دیا ہے۔
فلسطینی قانوندان ایڈووکیٹ مصطفیٰ شتات نے کہا ہے کہ رام اللہ اتھارٹی نے مقبوضہ مغربی کنارے میںسیاسی گرفتاریوں اور رہائی پانے والے قیدیوں اور کارکنوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔
انہوں نے نشاندہیکی کہ فلسطینی اتھارٹی نے مزاحمت کی حالت کو ختم کرنے کا فیصلہ جاری کیا اور اس پرعمل درآمد بہت پہلے شروع کر دیا تھا۔ اگرچہ اس کا اعلان نہیں کیا گیا۔ سابق اسیراناور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں مزاحمت کچلنے کی مہم کا ایک لازمی حصہ ہیں۔
سیاسی نظربندوںکو اتھارٹی کی جیلوں میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ کہ اگر وہ سیاسیگرفتاری، کام سے برطرفی اور ان کے مفادات پر پابندیوں کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیتےہیں تو ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
انہوں نے نشاندہیکی کہ حکام سیاسی نظربندوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ سیاسی حراست کی مذمت کرنے والےکسی بھی اعتراض یا کمیونیکیشن پلیٹ فارمز پر پوسٹس لکھنے سے روکنے کے لیے اپنے اہلخانہ سے رابطہ کریں۔
انہوں نے بتایاکہ سیاسی نظربندوں سے قابض ریاست کی جیلوں میں ان کی تنظیمی سرگرمیوں کے حوالے سےتفتیش کی گئی، جن میں سیاسی قیدی محمد راشدان بھی شامل ہے، جس نے 20 سال قابضریاست کی جیلوں میں گزارے اور تاحال بھوک ہڑتال پر ہیں۔
سیاسی گرفتاریکو روکنے کے سب سے مؤثر طریقے کے بارے میں شتات نے کہا کہ اتھارٹی کے مالی ذرائعسے بات چیت کرنا، یورپی یونین میں اتھارٹی کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلافشکایات درج کرانا اور یہ واضح کرنا کہ یورپی یونین کا پیسہ آزادیوں کو دبانے کے لیےجاتا ہے۔