فلسطین کے محصور علاقے غزہ کی پٹی کے مصیبت زدہ عوام کی مشکلات کی عکاسی کے لیے ترکی میں تیار کی گئی فلم ’’منیٰ‘‘ کی گذشتہ روز استنبول شہر میں نمائش کی گئی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اس فلم کی تیاری کا مقصد غزہ کی پٹی کے عوام کو درپیش مشکلات، اسرائیل کی مسلط کردہ جنگوں کے منفی اثرات، جنگی تباہ کاریوں، بمباری اور معاشی مشکلات کی عکاسی کرنا اور عالمی برداری کی توجہ محصورین غزہ کے مسائل کی طرف مرکوز کرانا ہے۔
’’منیٰ‘‘ فلم کے پروڈیوسر ایک ترک ادارکار سرادار غوز لکلی ہیں جنہوں نے ایک 6 سالہ فلسطینی بچی کی کہانی کی بنیاد پر فلم تیار کی ہے۔ فلم کے اسکرپٹ کا آغاز چھ سالہ بچی کے گھر پر اسرائیلی فوج کی چھاپہ مار کارروائی سے ہوتا ہے۔
اسرائیلی فوجیوں کو گھر داخل ہوتے دیکھ کر وہ گھبرائی ہوئی باورچی خانے میں داخل ہو جاتی ہے باورچی خانے کی الماری میں چھپ جاتی ہے۔ اس طرح وہ پوری رات اس الماری میں چھپی رہتی ہے۔ جب صبح ہوتی ہے اور وہ باہر نکلتی ہے تو گھر سنسان ہے اور اس کے سوا گھر میں اور کوئی نہیں۔ اسی اثناء میں جنگ سے متاثرہ شہریوں کی مدد کے لیے آئی ایک ترک خاتون ڈاکٹر ’’آلا‘‘ کا گذر ’منیٰ‘ کے گھر کی طرف سے ہوتا ہے۔ وہ منیٰ سے ملتی ہیں۔ منیٰ انہیں بتاتی ہے کہ اس کا پورا خاندان غائب ہو چکا ہے۔
فلم کی نمائش کے پہلے مرحلے میں صحافی اور فلمی کہانیوں کے مصنف سعاد قورج ار بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’منیٰ‘‘فلم میں غزہ کی پٹی میں جنگ سے متاثرہ شہریوں کی مشکلات کو نہایت خوبصورت اور دلفریب انداز میں عکاسی کی گئی ہے اور اس طرح کی سرگرمیوں سے غزہ کی پٹی کے عوام کی مشکلات کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔