سه شنبه 03/دسامبر/2024

غزہ جنگ میں 68 ہزار معذور افراد کی زندگی کیسی ہے؟

جمعرات 17-اکتوبر-2024

غزہ میں اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کی جنگ شروع ہونے سے پہلے، معذور افراد کی تعداد کل آبادی کا تقریباً 2.6 فیصد یعنی 20 لاکھ سے زیادہ تھی۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد اس میں 10000 کیسوں کا اضافہ ہوا ہے، اور خدشہ ہے کہ یہ تعداد زیادہ ہوسکتی ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق،گذشتہ 23 جولائی تک غزہ کے زخمیوں میں سے کم از کم ایک چوتھائی، یا 22500 زخمی، ایسے زخموں کا شکار ہیں جس سے ان کی زندگی کا رخ بدل گیا ہے اور انہیں اب اور آنے والے سالوں کے لیے بحالی کی خدمات کی ضرورت ہے۔

احمد ابو شعبان ان ہزاروں زخمیوں میں سے ہیں جن کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل چکی ہے۔

 فلسطینی یونیورسٹی میں فن تعمیر کی تعلیم حاصل کرنے والے پرجوش نوجوان کے لیے، جولائی 2024 کا موسم گرما ایسا تھا جس کی اسے توقع نہیں تھی۔

احمد اور ان کے خاندان کو جبری انخلاء کے احکامات پر غزہ کی پٹی کے جنوب میں اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، اور وہ ہزاروں دوسرے خاندانوں کی طرح مواصی خان یونس میں آباد ہو گئے۔ کیمپ میں زندگی مشکل اور سخت تھی، لیکن احمد نے اپنے اہل خانہ کے دلوں میں امید برقرار رکھنے کی کوشش کی۔

ایک بھیانک دن جب احمد ایک لمبی سڑک سے پانی لیے واپس آرہے تھے تو اچانک اسرائیلی میزائلوں کے حملے کا نشانہ بن گئے اور اس کے ساتھ ہی ان کی زندگی کا دھارا بدل گیا۔

 کئی دنوں تک بے ہوش رہنے کے بعد ہوش آنے پر انہیں احساس ہوا کہ ان کے پاؤں اور  دایاں ہاتھ غائب تھا۔

یہ صدمہ بیان سے باہر تھا احمد نے اپنا نیا جسم دیکھنے سے انکار کر دیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہے اور نہیں جانتا کہ اپنی زندگی معمول کے مطابق کیسے جئے گا؟

 روزمرہ زندگی میں، وہ پوری طرح سے اپنی وہیل چیئر پر اور بہت سے معاملات میں اپنے گھر والوں کی مدد کے محتاج ہو گئے ہیں۔

بے گھر لوگوں سے بھرے کیمپ کے اندر منتقل ہونا زخمی نوجوان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ خاص افراد کی ضروریات کے لیے ایسی جگہیں موزوں نہیں۔ وہ اپنے بائیں ہاتھ سے چمچ پکڑنے کی سخت کوشش کرتے ہیں مگر ناکام رہتے ہیں۔ پھر ان کا چھوٹا بھائی، ان کا دایاں بازو بن کر روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے میں مدد کرتا ہے۔۔۔

عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جنگ کے نتیجے میں ہونے والے زخموں کی اقسام کے تجزیے سے معلوم ہوا  ہےکہ سب سے زیادہ شدید چوٹیں بازو اور ٹانگوں پہ لگی ہیں۔ اندازے کے مطابق،  13455 سے 17550 کے درمیان ایسے زخمی ہیں۔ بہت سے مریض ایک سے زیادہ چوٹوں کا شکار ہوتے ہیں۔

12 ستمبر 2024 کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ہاتھ اور ٹانگ کٹ جانے والے زخمیوں کی تعداد 3105 سے 4050 کے درمیان پہنچ گئی۔ ریڑھ کی ہڈی کی چوٹوں، دماغی تکلیف دہ چوٹوں اور شدید جلنے کی زخموں میں نمایاں اضافہ زندگی بدل کے رکھ دینے والے زخمیوں کی کل تعداد میں اضافہ کرتا ہے۔ ان میں ہزاروں خواتین اور بچے شامل ہیں۔

مہلک ہتھیار

خان یونس میں ناصر میڈیکل کمپلیکس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ناہض ابو طعیمہ کا کہنا ہے کہ ہاتھ پاؤں زائل ہونے والے زخمیوں میں نمایاں اضافہ قابض افواج کی جانب سے نئے قسم کے ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے ہے جو ان سنگین زخموں کا باعث بنتے ہیں۔ ہسپتالوں میں روزانہ زخمیوں کی آمد نے زخمیوں کے لیے مستقل معذوری کے امکانات کو دوگنا کر دیا ہے، کچھ زخمیوں کو ہسپتالوں میں لے جانے میں تاخیر کے باعث زخم بگڑ رہے ہیں اور طبی ٹیموں کے لیے ان سے نمٹنا مشکل ہو گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ طبی مراکز تک رسائی اکثر عدم تحفظ، حملوں اور بار بار جبری انخلاء کے احکامات کی وجہ سے نہیں ہو پاتی۔

 غزہ میں اعضاء کی تعمیر نو اور بحالی کا واحد مرکز ناصر میڈیکل کمپلیکس میں واقع ہے۔ یہ سپلائی کی کمی کی وجہ سے دسمبر 2023 سے بند ہے۔ پہلے عملے کی حفاظت کے خوف سے چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا، اور پھر فروری 2024 میں ایک حملےمیں اس مرکز کو تباہ کر دیا گیا تھا۔

رپورٹس بتاتی ہیں کہ 10 مئی تک 39 فزیو تھراپسٹ مارے گئے۔

ڈاکٹر ناہض کہتے ہیں کہ بحالی کی خدمات اور زخموں کے لیے مصنوعی اعضاء کی تنصیب کی سہولت اب دستیاب نہیں ہے، کیونکہ زخمی افراد کی تعداد جنہیں امدادی آلات کی ضرورت ہے، غزہ کی پٹی کے تمام مراکز میں دستیاب آلات سے کہیں زیادہ ہے۔

بحالی کی خدمات میں خلل

مقبوضہ فلسطینی علاقے میں عالمی ادارہ صحت کے نمائندے ڈاکٹر رچرڈ پیپرکورن کا کہنا ہے کہ صحت کے نظام کی جاری تباہی کے ساتھ بحالی کی ضروریات میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ طبی آلات کی خستہ حالی اور کمی، ادویات اور  ایندھن کی کمی کی وجہ سے غزہ میں 36 میں سے صرف 17 ہسپتال جزوی طور پر اپنے کام انجام دے رہے ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں: "مریضوں کو وہ دیکھ بھال نہیں مل سکتی جس کی انہیں ضرورت ہے۔ شدید بحالی کی خدمات میں شدید خلل پڑتا ہے، اور پیچیدہ زخموں میں مبتلا افراد کے لیے خصوصی دیکھ بھال دستیاب نہیں ہے، جس سے مریضوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔

 بحالی کے میدان میں بہت زیادہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فوری اور طویل مدتی مدد کی فوری ضرورت ہے،” انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "غزہ میں بحالی کے شعبے سے وابستہ عملے کا ایک بڑا حصہ اب بے گھر ہو چکا ہے۔”

جبری نقل مکانی کی مشکلات

ایک ایسے وقت میں جب ہر کوئی اپنے بقا کی کوشش کر رہا ہے،  نقل و حرکت میں دشواری اور دوسروں کی مدد کی ضرورت کی وجہ سے معذور افراد کو بار بار جبری نقل مکانی میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذہنی معذوری یا آٹزم کے شکار بچوں کے لاپتہ ہونے کے درجنوں کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

ان میں سے ہزاروں افراد کو مناسب پناہ گاہ تلاش کرنے، پانی، خوراک، ادویات اور معاون آلات جیسے کہ وہیل چیئر، واکر، سماعت کے آلات وغیرہ حاصل کرنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے، جن کی انہیں اشد ضرورت ہے۔ بجلی کی بندش کے باعث اونچی عمارتوں سے معذور افراد کو نکالنے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

معذور افراد کی بحالی کے لیے کام کرنے والی فلسطینی این جی اوز نے غزہ کی پٹی میں بڑھتی ہوئی اور جاری اسرائیلی جارحیت کے خطرناک اثرات کے بارے میں انتباہ کیا ہے کہ یہ بے مثال انسانی تباہی  معذور افراد کی زندگیوں کو ہر سطح پہ متاثر کر رہی ہے.

گذشتہ 29 جون کو شائع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق، غزہ میں سینکڑوں معذور افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں، ہزاروں معذور افراد نقل مکانی کی مشکلات سے دوچار ہونے کے علاوہ شدید نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔

نیٹ ورک کے ڈائریکٹر امجد الشوا کہتے ہیں کہ قابض فوج کی جانب سے بنیادی ڈھانچے، اہم سڑکوں، رہائش گاہوں اور بحالی کے شعبے میں کام کرنے والی تنظیموں کے ہیڈ کوارٹرز کی تباہی نے معذور افراد کی نقل و حرکت اور اہم خدمات تک رسائی کی صلاحیت کو بھی محدود کر دیا ہے۔

اس کے علاوہ، وہ بار بار بے گھر ہونے کی وجہ سے اپنے امدادی آلات سے محروم ہو  گئے ہیں۔

اہم تعداد

فلسطینی سینٹرل بیورو آف سٹیٹسٹکس کی رپورٹ کے مطابق جنگ شروع ہونے پر غزہ کی پٹی میں معذور افراد کی تعداد تقریباً 58000 تک پہنچ گئی ہے جو کل آبادی کا 2.6 فیصد بنتی ہے۔ یاد رہے کہ 18 سال اور اس سے زیادہ عمر کے بالغوں میں معذوری کی شرح 3.9 فیصد ہے۔

معذوری کا پھیلاؤ شمالی غزہ کی گورنری میں سب سے زیادہ تقریباً 5 فیصد تھا، اس کے بعد دیر البلح گورنری میں، 4.1 فیصد ہے۔

 ایجنسی کے مطابق، سال 2023  میں 2 سے 17 سال کی عمر کے معذور بچوں کی تعداد تقریباً 98 ہزار بچوں تک پہنچ گئی، جن میں 2 سے 4 سال کی عمر کے تقریباً 6 ہزار بچے بھی شامل ہیں، اور 5 اور 17 سال کی عمر کے گروپ میں تقریباً 92 ہزار بچے معذور ہیں۔

دوسری طرف، غزہ کی پٹی میں 2 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں سیکھنے کی مشکلات سب سے عام معذوری ہیں، اور ان کی تعداد 2023 میں تقریباً 21200 بتائی گئی ہے۔

خیال ہے کہ جںگ کے دوران نفسیاتی صدمات کی وجہ سے یہ تعداد بڑھے گی۔

بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی

معذور افراد کے موجودہ حالات اور مہلک ہتھیاروں کا استعمال، جس نے معذور افراد کی تعداد کو دوگنا کردیا ہے، بین الاقوامی انسانی قانون اور مسلح تنازعات میں معذور افراد کے حقوق کے قانون کی صریح خلاف ورزی ہیں۔

معذور افراد کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کا کنونشن، جس کی اسرائیل نے 2012 میں توثیق کی، کہتا ہے کہ رکن ممالک کو، تنازعات میں "معذور افراد کے تحفظ اور حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔”

اسی طرح، بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت، متحارب فریقوں کو عام شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے تمام ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں، جیسا کہ "آبادی والے علاقوں میں دھماکا خیز ہتھیاروں کے استعمال سے گریز سے متعلق اعلامیہ”، جس پر 83 ممالک نے دستخط کیے ہیں۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر دھماکہ خیز ہتھیار اور گنجان آبادی والے علاقوں میں اندھا دھند کی بھی ممانعت ہے۔

مختصر لنک:

کاپی