فلسطین میں انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں غزہ کی پٹی سے غرب اردن علاج کے لیے آنے والے 19 سالہ فلسطینی نوجوان یوسف یونس محمد یونس کو صہیونی حکام نے اسپتال میں جانے کی اجازت دینے کے بجائے حراست میں لے لیا تھا۔ بروقت علاج کی سہولت نہ ملنے کے باعث صہیونی فوج کی حراست میں اس کی موت واقع ہو گئی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے انسانی حقوق کی تنظیم ’’المیزان‘‘ کے حوالے سے بتایا ہے کہ فلسطینی شہری غزہ کی پٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے خون میں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ غزہ میں علاج کی کوشش کی گئی مگر ڈاکٹروں نے اسے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر نابلس میں اسپتال میں علاج کی تجویز دی تھی جس کے بعد وہ اپنے اقارب کے ہمراہ غزہ اور غرب اردن کے درمیان قائم ’’بیت حانون‘‘[ایریز] گذرگاہ پر پہنچا تو صہیونی حکام نے اسے حراست میں لے لیا۔ دوران حراست اسے اذیتیں بھی دی گئیں اور بروقت علاج کے لیے اسپتال جانے کی اجازت نہیں دی گئی، جس کے نتیجے میں صہیونی فوج کی حراست میں اس کی موت واقع ہو گئی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے یوسف کی اسرائیلی فوج کی حراست میں موت کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیتے ہوئے اسے ماورائے عدالت قتل قرار دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ صہیونی ریاست ان تمام عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے جنہوں نے کینسر کے مرض میں مبتلا فلسطینی کو اسپتال جانے کی اجازت دینےسے روکا، اسے حراست میں لیا اور جنگی جرائم کا ارتکاب کرتےہوئے اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہو گئی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم المیزان کا کہنا ہے کہ یوسف محمد یونس ایریز گذرگاہ پر بلیک میلنگ کا شکار ہونے والا ایک نیا فلسطینی ہے۔ اس نے صہیونی حکام کی بلیک میلنگ میں آنے سے انکار کیا جس پراسے نہ صرف یہ کہ اسپتال جانے سے روکا گیا بلکہ تشدد کرکے شہید کر دیا تھا۔
خیال رہے کہ فلسطینی نوجوان 14 مئی 2016ي کو جنین کی عرابہ چوکی سے حراست میں لیا تھا۔ وہ ایریز گذرگاہ سے آگے چلا گیا تھا مگر اسے نابلس میں اسپتال نہیں پہنچنے دیا گیا اور گرفتار کر لیا گیا تھا۔