امریکا میں ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی الیکشن میں کامیابی کے ساتھ ہی صہیونی ریاست کے مقتدر حلقوں میں فلسطین میں یہودی توسیع پسندی کی بحث دوبارہ چھڑ گئی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صہیونی ریاست کے عہدیداروں نے فلسطین میں یہودی آباد کاری کے نئے مطالبات شروع کر دیے ہیں۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کی خارجہ و سیکیورٹی کمیٹی کے چیئرمین آفی دیختر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ غرب اردن اور مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی آباد کاری روکنا وقت کا ضیاع ہے۔
حکمراں جماعت ’’لیکوڈ‘‘ کے سرکردہ رہ نما اور رکن کنیسٹ نے حکومت پر زور دیا کہ وہ فلسطین کے تمام علاقوں بالخصوص مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی آباد کاری کی اسکیموں پر کام تیز کرے۔
ریڈیو اسرائیل سےبات کرتے ہوئے شاباک کے سابق چیف آفی دیختر کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ یہودی توسیع پسندی پر عاید پابندی ختم کرے اور بیت المقدس میں تعمیرات کام دوبارہ شروع کرے۔
خیال رہے کہ سنہ 2009ء میں صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے خبردار کیا تھا کہ یہودی آباد کاری پر پابندی سے فلسطینیوں کو فایدہ پہنچ سکتا ہے۔ اس طرح فلسطینی عالمی برادری سے یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ وہ فلسطین میں یہودی آباد کاری پر مکمل پابندی لگوائے۔
فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں اسرائیل نے آباد کاری کا سلسلہ سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب۔ اسرائیل جنگ کے بعد شروع کیا تھا۔
حال ہی میں یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ صہیونی بلدیہ نے بیت المقدس میں 7100 نئے مکانات کی تعمیر کی تیاری شروع ہے۔’’معالیہ ادومیم‘ بیت المقدس کی سب سے بڑی یہودی کالونی ہے جس میں 35 ہزار یہودی آباد کار آباد ہیں۔ صہیونی ریاست اس سمیت تمام دیگر کالونیوں کو وسعت دینے کی سازشوں میں سرگرم عمل ہے۔