پورے عالم اسلام کی طرح فلسطین کے محاصرہ زدہ علاقے گزہ کی پٹی کے مسلمانوں پر بھی مایہ صیام سایہ فگن ہے۔ اہالیان غزہ پر یہ ماہ مبارک ایک ایسے وقت میں آ رہا ہے جب دو ملین کے لگ بھگ آبادی انتہائی خطرناک بحرانوں کا سامنا کررہی ہے۔ اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کے خطرات اپنی جگہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کی ملی بھگت سے غزہ کے علاقے پر بجلی کا بدترین بحران مسلط کیا گیا ہے۔ خوراک کی قلت کا بحرا، پانی کا بحران، شہریوں کومناسب رہائش کا بحران اور کئی دوسرے بحران سانپ کی طرح پھن پھیلائے کھڑے ہیں۔
غزہ کی پٹی کے عوام چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین، بچے ہوں یا بوڑھے چاہے ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر یا سیاسی نظریے سے ہو وہ بہرحال ان بحرانوں سے یکساں متاثر ہیں۔
اہالیان غزہ کیا شکایات کرتے ہیں؟ مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک رپورٹ میں ان کی مشکلات کا احوال بیان کیا ہے۔ مقامی شہریوں کا کہنا ہے غزہ کی گذرگاہیں بند ہیں۔ خوراک کی ترسیل معطل ہے۔ غزہ کے شہریوں کو مسلسل تیسرے سال عمرہ کی ادائی سے روکا گیا ہے۔ غزہ کے اسپتالوں ادویہ کی شدید قلت ہے۔ بے روزگاری، غربت جیسے محوری مسائل کے ساتھ ساتھ پانی اور بجلی کے بحران نے عوام علاقہ کی کمر دوہری کردی ہے۔رہی سہی کسر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی نے نکال دی ہے۔
تنخواہوں کا بحران
جب سے فلسطینیوں میں بے اتفاقی اور انقسام نے ڈیرے ڈالے ہیں فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس ہرسال ماہ صیام سے قبل غزہ کے عوام کو دھکیاں دیتے اور ان کے خلاف غیر مسبوق اقدامات کرتے ہیں۔ رواں سال تو فلسطینی اتھارٹی اور صدر عباس نے اپنی انتقامی پالیسی کی حد ہی کردی۔
کوئی ایک ماہ قبل فلسطینی صدر محمود عباس نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے غزہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اچانک 30 سے 50 فی صد کمی کا اعلان کردیا۔ حالانکہ ان میں سے بیشتر ملازمین خود صدر محمود عباس کی جماعت تحریک فتح کے حامی ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے اس انتقامی اقدام نے تمام سیاسی، اقتصادی اور اجتماعی زندگی پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
تنخواہوں کے بحران نے فلسطینی سیاسی جماعتوں حماس اور فتح کے درمیان مفاہمت کے لیے ہونے والی بات چیت کو مزید پیچیدہ کردیا اور بات چیت کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں۔ حماس کی انتظامی کمیٹی گذشتہ تین سال سے غزہ کے سرکاری ملازمین کی 50 فی صد تنخواہوں کی ادائی کا انتظام کررہی ہے۔
فلسطینی صدر عباس کی طرف سے غزہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی ہزاروں فلسطینی خاندانوں پر معاشی بم ثابت ہوئی۔
بجلی کا بحران
گذشتہ 40 روز سے غزہ کی پٹی میں بجلی کا بدترین بریک ڈاؤن ہے۔ غزہ کا مرکزی پاور جنریٹر ایندھن کی عدم موجودگی کے باعث تعطل کا شکار ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب غزہ کی پٹی کے عوام پر بجلی کا بحران مسلط کیا گیا۔ فلسطینی اتھارٹی کچھ عرصے کے بعد غزہ کے عوام کو بجلی کے ایک نئے بحران سے دوچار کردیتی ہے۔
حالیہ چند برسوں کے دوران غزہ کی پٹی میں بجلی کے بحران کےبعد ترکی اور قطر نے اس کے حل میں مدد کی۔
گذشتہ چالیس روز سے فلسطینی اتھارٹی اور رام اللہ حکومت غزہ کی پٹی کو ایندھن کی سپلائی بند کیے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں بجلی کا بدترین بحران ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی دانستہ طور پرغزہ میں بجلی کے بحران کو طول دے رہی ہے تاکہ غزہ کے عوام اس کا قصور وار حماس کو قرار دے کر اس کے خلاف علم بغاوت بلند کردیں۔ مگر غزہ کے عوام بہ خوبی جانتے ہیں کہ بجلی کے بحران سمیت ان کی تمام مشکلات اور مسائل کا سبب فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی پالیسیاں ہیں۔
اگر فلسطینی اتھارٹی ماہ صیام کی آمد کے موقع پر بھی غزہ کے پاور جنریٹر کو ایندھن کی سپلائی نہیں کرتی تو اس سےاس کی بدنیتی کھل کر سامنے آتی ہے۔ اس وقت غزہ کی پٹی میں بجلی کا عالم یہ ہے کہ چوبیس میں سے صرف تین یا چار گھنٹے بجلی آ رہی ہے۔
پانی کا بحران
غزہ کے عوام کا ایک بڑا مسئلہ پینے کے صاف پانی کی قلت کا ہے۔ بجلی کے بحران نے اس بحران کو مزید گھمبیر کردیا ہے۔
بین الاقوامی ادارے غزہ کی پٹی میں پانی کی قلت میں اضافے کی وارننگ دے چکے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ چند برسوں کے دوران غزہ کی پٹی میں پانی کا بدترین بحران دیکھا گیا ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پانی کے بحران میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے اعدادو شمار کے مطابق غزہ کی پٹی کے لیے سالانہ 200 سے 220 ملین مکعب میٹر پانی کی ضرورت ہے۔
ساحلی علاقوں کے شہری کھارے پانی کو میٹھے میں تبدیل کرکے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایسے تمام پلانٹ جو پانی کا کھارا پن ختم کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں بجلی کے بریک ڈاؤن کی وجہ سے متاثر ہیں۔
اس کے علاوہ کنوؤں کا پانی کا ذخیرہ بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ پائپ لائنوں کے ذریعے پانی کی فراہمی بجلی کی عدم دستیابی کے باعث متاثر ہے۔