پنج شنبه 23/ژانویه/2025

غزہ میں شہد کا موسم ، بڑے چیلنجز اور اچھے موسم کی امید

اتوار 30-اپریل-2023

محصور غزہ کی پٹی میں شہد کی پیداوار کے موسم کے آغاز کے ساتھ ہی، اس کاروبار سے وابستہ افراد کئی مشکلات اور چیلنجوں کی شکایت کررہے ہیں جو اس سال کی متوقع پیداوار کو متاثر کرسکتے ہیں۔ ان میں خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی، اور قابض اسرائیل کے طیاروں کی جانب سے مہلک کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ قابل ذکر ہیں۔

شہد کی مکھیاں پالنے والے مالک قدیح، جو خان یونس گورنری کے مشرق میں خزاعہ کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ سال شہد کی پیداوار کے لیے گزشتہ موسموں اور سالوں کی نسبت بدترین سال ہے۔ 

انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے علاوہ کسانوں اور قابض اسرائیلی حکام کے طیاروں کے ذریعے کیڑے مار خطرناک ادویات کے چھڑکاؤ کے علاوہ انکیوبیٹر کی کمی جیسے مسائل کا حوالہ دیا جن کی وجہ سے  اس بار سال بھر کی پیداواری صلاحیت کو متاثر ہورہی ہے۔

قدیح نے مجاز حکام سے کسانوں اور شہد کی مکھیاں پالنے والوں کی مدد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: "بدقسمتی سے، پچھلے تمام موسموں کے برعکس یہ سیزن بہت کمزور ہے، وزارت زراعت اور مجاز حکام شہد کی مکھیاں پالنے والوں کی مدد کریں بصورت دیگر شہد کی مکھیوں کا شعبہ مسلسل زوال کا شکار رہے گا۔”

شہد کی مکھیاں پالنے والے فہد الدحدوح نے خراب موسم کے خدشے  کے پیش نظر تیار شہد اتارنے کے عمل کو ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دیا ہے۔ اس دوران وہ درجہ حرارت کے اعتدال پر آنے کا انتظار کر رہے ہیں ۔ معتدل آب وہوا  پیداوار شہد کی پیداوار بڑھانے  کے لیے اہم مانا جاتا ہے۔”

الدحدوح، جو 10 سال سے اس پیشے سے وابستہ ہیں، نے کہا: "موسم ناسازگار ہونے کی صورت میں شہد کی مکھیاں پھولوں سے رس حاصل کرنے کے لیے اپنے ٹھکانے کو چھوڑنے سے گریز کرتی ہیں، اور اس سے شہد کی پیداوار میں بھی تاخیر ہوتی ہے۔”

الدحدوح نے شہد کی مکھیوں کے پالنے والوں کو درپیش کچھ اور رکاوٹوں کو بھی بیان کیا، جن میں سب سے اہم لیموں اور یوکلپٹس کے درختوں کی کمی ہے جو شہد کی مکھیوں کی خوراک کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ اس کے علاوہ مکھیوں میں  "واروا” بیماری بھی ہے، جس سے یہ اڑنے کی صلاحیت کھو دیتی ہیں۔

انہوں نے وزارت زراعت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ مقامی پیداوار کو درآمد کنندہ سے بچایا جائے، خاص طور پر اس وقت جب قومی پیداوار مارکیٹ میں آتی ہے۔

غزہ میں پالی جانے والی شہد کی مکھیوں کو دو قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے: پہلی پیلی ہے جسے ہارثی کہتے ہیں، جو فطرت میں سخت ہے اور اس سے شہد کی پیداوار کم ہوتی ہے، اور دوسری بھوری رنگ کی ہوتی ہے، جو نسبتاً پرسکون اور یہ زیادہ مقدار میں شہد پیدا کرتی ہے۔

وزارت زراعت کے ترجمان ادھم البسیونی کا کہنا ہے کہ رواں سال شہد کی پیداوار 200 ٹن تک پہنچ جائے گی جو کہ ضرورت کا ایک حصہ پورا کرتی ہے۔

ایک پریس بیان میں، البسیونی نے گزشتہ دس سالوں کے دوران غزہ کی پٹی میں شہد کی مکھیوں کے پالنے میں اضافے کی طرف اشارہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ آج شہد کی مکھیوں کی تعداد تقریباً 25000 تک پہنچ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی وزارت مقامی مصنوعات کو فروخت کرنے کو ترجیح دیتی ہے، اور اس کے بدلے میں درآمد کنندہ کے لیے خسارے کو پورا کرنے کا راستہ کھلتا ہے، اور مقامی اور درآمدی پیداوار کے معیار پر کنٹرول سخت ہوتا ہے۔

الباسیونی نے اشارہ کیا کہ بہار کی پیداور دراصل بنیاد ہے، اس کے بعد اگلی پیداور پہلی کے دو ماہ بعد آتی ہے، جس میں شہد کی مجموعی پیداوار کی شرح 70-80 ٹن  تک ہوتی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی