سه شنبه 14/ژانویه/2025

باب الرحمہ اس کاعنوان ہے، رمضان کےبعد بھی مسجداقصیٰ کےدفاع کی جنگ جاری

منگل 25-اپریل-2023

رمضان المبارک میں مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں تاریخی رباط ، نماز گاہوں میں نماز کی ادائی، اور فلسطینی معاشرے کے تمام طبقات اور گروہوں کی لاتعداد حاضری، جس کے دوران دفاع، تعاون اور اعتکاف کی ایسی تصویریں کھینچی گئیں جو فلسطینیوں میں مقامات مقدسہ کی حرمت کی پاسداری کو مجسم کرتی ہیں۔ اور یہ واضح کرتی ہیں کہ فلسطینی اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوسکتے اور نہ ہی کسی ادھورے حل کو قبول کریں گے جو قابض اسرائیل ان پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

وہ مناظر جن پر تمام فلسطینیوں کو فخر ہے اور وہ مقبوضہ بیت المقدس کے لیے خون اور محبت سے رنگے ہوئے ہیں، ان میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے فلسطینیوں نے قابض اسرائیل کے تمام جابرانہ اقدامات کو نظرانداز کرتے ہوئے،  مسجد اقصیٰ میں اعتکاف کے فوراً بعد باب الرحمہ میں نئی حقیقت مسلط کرنے کی قابض اسرائیل کی کوشش ناکام بنا دی۔ جہاں رمضان اور آخری عشرے کے دوران بڑی تعداد میں حاضری دیکھنے میں آئی۔

رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں باب الرحمہ کے سامنے اور مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں اعتکاف کے خیمے بچھائے گئے تھے جہاں عبادت گزاروں کو قابض یہود کے مذموم منصوبوں کا براہ راست سامنا تھا۔ 

قابض حکام نے عید الفطر کے بابرکت دنوں میں بار بار مصلے پر دھاوا بولا، قرآن پاک کے نسخے زمین پر پھینک کر اس کی بےحرمتی کی، بجلی کے نیٹ ورک کو تباہ کیا، آڈیو سپیکر چوری کیے ، یہاں تک کہ موذن کو دن میں 5 بار اذان دینے سے بھی روکا گیا، القبلی نمازگاہ کے سپیکروں کی تاریں کاٹیں، اور کل، پیر کو عشاء کی اذان دینے سے روکا گیا۔

دردناک مناظر

ایک فلسطینی زائرہ ام بلال ابو سنینہ نے کہا کہ قابض فوج نے باب الرحمہ مصلی میں ہر وہ چیز تباہ کردی جو عبادات اور نمازیوں کے استعمال کے لیے تھی، یہ جانتے ہوئے کہ یہ حملے نمازگاہ  اور اسلام کے خلاف جنگ ہیں۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ: "جو کچھ ہوا وہ بہت بڑی تباہی تھی اور انہوں نے باب الرحمہ پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی۔ قابض فوجی نے بجلی کی تاریں کاٹ دیں اور اس کی نمازگاہ کی بے حرمتی کی۔

انہوں نے مزید کہا، "قابض افواج نے رمضان کے اختتام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مصلی میں تخریب کاری کی، اور وہ یہاں ایک نئی حقیقت مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”

شدید جنگ!

امور بیت المقدس کے محقق خالد عودہ اللہ نے کہا کہ موجودہ مرحلہ ایک "سخت جنگ” کی نمائندگی کرتا ہے جس کا عنوان مصلی باب الرحمہ  ہے، انہوں نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ  اس سے قبل 2019  میں بھی مصلی کو کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کرچکا ہے۔

عودہ اللہ نے "مرکز اطلاعات فلسطین” کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ قابض حکام کے منصوبے باب الرحمہ نمازگاہ کو مسجد اقصیٰ سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ واضح رہے کہ یہ مبارک مسجد اقصیٰ کی مقامی تقسیم کا ایک مرکزی نقطہ ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا: "یہ اقدامات باب الرحمہ اور مسجد اقصیٰ کے ساتھ ساتھ اس کے صحنوں اور مصلوں پر ہونے والی جنگ کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں، خاص طور پر قابض اسرائیل کے ساتھ تصادم کی شدت کے بعد سے

مستقل پالیسی.. الاقصیٰ مدد کے لیے پکار رہی ہے!

مصلی باب الرحمہ میں پیش آنے والے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے القدس کے امور کے ایک محقق زیاد ابحیس نے وضاحت کی کہ اسرائیلی قابض فورس ایک مستقل پالیسی کے تحت نمازگاہ کے خلاف اپنی جارحیت کو جاری رکھے ہوئے ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسے نمازگاہ کے طور پہ تسلیم نہیں کرتی۔

انہوں نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "قابض فوج نے مسجد اقصیٰ کے میناروں کے اسپیکروں کی تاریں کاٹ دیں تاکہ اذان کی آواز کو باہر تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔ اس نے باب الرحمہ نمازگاہ پر جوتوں سمیت دھاوا بولا، اور تقسیم کی پالیسی مسلط کرنے کی کوشش میں نماز عشاء کے بعد نمازیوں کو وہاں سے نکال دیا۔

انہوں نے مزید کہا: "قابض افواج کے ان اقدامات سے ایک بار پھر تصدیق ہوتی ہے کہ قابض حکام مسجد اقصیٰ کی مقامی تقسیم کی جنگ کی تجدید کی طرف مضبوطی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ مسلسل تیسرے سال قابض فوج نے مسجد کی مغربی دیوار پر میناروں کے سپیکروں سے جڑی تاریں کاٹ دیں، اس طرح شام کی نماز کے لیے اذان دینے سے روکا  ہے یہ پے در پے جنگوں اور تصادموں میں اپنے مارے جانے والے فوجیوں کی یاد کے جشن کے ساتھ موافق ہے، جسے صہیونیت "یومِ یاد” کے نام سے جانتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ دن اس سے قبل 2021 میں یکم رمضان کے ساتھ آیا تھا جب میناروں کی تاریں کاٹی گئیں اور میناروں کے کئی اندرونی دروازے اور صوتی آلات توڑ دیے گئے تھے۔ 

جبکہ  2022 میں یہ دن شوال کے چوتھے دن آیا تھا، اور اس میں اس نے اوقاف کے ملازمین کو بیرونی اسپیکرز اور چوکور اسپیکرز پر اذان نشر کرنے سے روک دیا تھا، اور اسے صرف مسجد القبلی تک محدود کر دیا تھا۔

مختصر لنک:

کاپی