ماہ صیام کی آمد آمد ہے اور فلسطین کےعلاقے غزہ کی پٹی میں صہیونی ریاست کی طرف سے مسلط کردہ معاشی اوراقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں کساد بازاری اپنے نقطہ عروج پر ہے۔ کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی طلب اور رسد میں واضح فرق موجود ہے۔ حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے غزہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کے فیصلے نے ہزاروں خاندانوں کی قوت خرید کو براہ راست اور بالواسطہ طور پر متاثر کیا ہے۔
مقامی فلسطینی کاروباری شخصیات نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ماہ صیام کی آمد سےپہلے غزہ کے بازاروں کی رونقیں بڑھ جایا کرتی تھیں مگر اس بار کاروباری نظام بری طرح مفلوج ہے۔
ایک مقامی فلسطینی تاجر محمد سلیمان نے بتایا کہ ماہ صیام کے موسم میں فلسطینی کاروباری مراکز میں ہرطرف خریداروں کا ھجوم بڑھ جایا کرتا تھا مگر غزہ کی پٹی پر مسلط کردہ معاشی اور اقتصادی پابندیوں کے باعث شہریوں کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بار ماہ صیام کی آمد سے قبل غزہ کے بازارون میں گاہکوں کی جسد قدر قلت ہے ماضی میں کبھی نہیں تھی۔
ایک سرکاری ملازم علی غزال نے مرکزاطلاعات سے بات کرتے ہوئے سخت پریشانی اور مایوس کا اظہار کیا۔ 38 سالہ علی غزال نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کے فیصلے کے بعد ماہ صیام کے دوران بہ کثرت استعمال کی جانے والی مصنوعات کی خریداری نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
ایک مقامی فلسطینی خاتون ام اسامہ حامد نے بتایا کہ اس نے ماہ صیام کی مناسبت سے اشیاء کی ایک فہرست تیار کی۔ جب انہیں لینے بازار میں پہنچی تو ان میں سے بہت سی چیزیں دکانوں یا تو موجود نہ تھیں، جو تھیں وہ قوت خرید سے باہر تھیں۔ میں نےمحسوس کیا کہ غزہ کی پٹی پر مسلط معاشی پابندیوں کے باعث دکاندار اور گاہک دونوں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے غزہ کی پٹی کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کسی پیشگی وجہ یا نوٹس کے 30 سے 50 فی صد کٹوتی کردی تھی جس کے نتیجے میں غزہ کے ہزاروں خاندانوں کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
معاشی خسارہ
فلسطینی تجزیہ نگار لوئی رجب نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی کی معاشی کساد بازاری اس وقت شروع ہوگئی تھی جب دس سال قبل غزہ کی پٹی پر اسرائیل نے معاشی پابندیاں عاید کی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماہ صیام سے قبل شہریوں کی قوت خرید پہلی بار متاثر نہیں ہوئی مگر اس بات اس میں اضافہ اس لیے ہوا کیونکہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے انتقامی پالیسی کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کردی تھی۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے لوئی رجب نے کہا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی مسلط کردہ معاشی پابندیاں نے سب سے زیادہ خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے شہریوں کو درپیش ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ غزہ کی پٹی میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے والے شہریوں کی تعداد 65 فی صد سے تجاوز کرگئی ہے، بے روزگاری کی شرح 41 فی صد ہے اور غزہ کی پٹی میں قریبا 2 لاکھ شہری بے روزگار ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی کے عوام کی قوت خرید بہ تدریج کم ہو رہی ہے۔ اگر فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے حوالے سے پالیسی تبدیل نہ کی تو آنے والے عرصے میں غزہ کی پٹی کے عوام کی معاشی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔