فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس کی مغربی سمت میں آج سے کئی سال قبل ایک تنظیم نے فلسطین کی سرکاری امداد اور بیرونی امداد کے ذریعے ان فلسطینی اساتذہ کی رہائش گاہوں کے لیے ایک کالونی قائم کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔ فلسطینی اتھارٹی کی لاپرواہی، عالمی برادری کی مجرمانہ غفلت اور اسرائیلی ریاست کے توسیع پسندانہ پالیسیوں کے باعث آج یہ کالونی اور اس میں بنائے گئے مکانات اسرائیلی فوج کے ٹریننگ سینٹر میں تبدیل ہوچکی ہے۔
یہ کالونی تو کسی طرح تعمیر کرلی گئی تھی مگر اس کا فایدہ صرف صہیوج فوج کو پہنچا ہے۔ کیونکہ یہاں پرہر دوسرے یا تیسرے ہفتے اسرائیلی فوجی مشقیں کرتے اور ان گھروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اساتذہ کےلیے یہ کالونی ’کارپوریشن ہورزین‘ نامی تنظیم نے تعمیر کی۔ اس کالونی کا آغاز سنہ 1997ء میں کیا۔ اساتذہ کالونی کے لیے مغربی نابلس میں اجنسینا اور الناقورہ بستیوں کے درمیان خالی جگہ کا انتخاب کیا گیا۔ منصوبے کے تحت ڈیڑھ سو کے قریب مکانات مکمل کرلیے گئے مگر بیورو کریسی اس منصوبے کی تکمیل کی راہ میں آڑے آگئی۔
تنظیم کے چیئرمین عمرو کلبونہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے منصوبے پر کام شروع کیا اسے فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے بھی غیرمعمولی اہمیت دی گئی اور تعاون کا یقین دلایا گیا۔ کیونکہ یہ منصوبہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل تھا۔ اس لیے توقع تھی کہ فلسطینی اتھارٹی اور دیگر امداد دینے والے ادارے اس منصوبے میں تعاون کریں گے۔ مگر وقت گذرتا گیا اور منصوبہ التوا کا شکار ہوتا چلا گیا۔ مکانات تو تعمیر کرلیے گئے تھے مگر ان میں پانی، بجلی، سوریج کے نظام اور دیگر بنیادی سہولیات کا انتظام نہ کیا جاسکا۔ یوں 150 دونم رقبے پر قائم 170 مکانات کا منصوبہ ادھورا رہ گیا۔
اسرائیلی فوج نے یہودی کالونیوں کے لیے ایک سڑک اسی اساتذہ کالونی کے قریب سے تیار کی اور قریبا 10 سال تک اس کالونی تک رسائی بند کردی۔ آج سے چار سال پیشتر اس کالونی تک رسائی دی گئی۔
کلبونہ نے بتایا کہ وہ حیران ہیں کہ لاکھوں ڈالر کے منصوبے کو ادھورا چھوڑنے کے بعد اب اسے اسرائیلی فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج آئے روز یہاں پر مشقیں کرتے اور ان مکانوں کو مشقوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے ان سے پندرہ سال سے وعدے کئے جا رہے ہیں مگر اب تک کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔
ایک مقامی فلسطینی عہدیدار کا کہنا ہے کہ اساتذہ کے لیے قائم کردہ کالونی میں رہنے والے خاندانوں کو 2500 شیکل کی رقم بجلی کے بلات کی شکل میں ادا کرنا ہوگی۔ پانی کی کمی کا یہ عالم ہے کہ کالونی میں پانی ٹینکروں کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات فلسطینی شہریوں کو ایک گلاس پانی 60 شیکل میں ملتا ہے۔
کلبونہ کا کہناہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے کالونی کو سبسطیہ کنوئیں سے 2000 گیلن پانی فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے مگر عملا انہیں یہ پانی فراہم نہیں کیا جاتا۔