مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں شہید ہونے والوں میں 98 بچے، 18 خواتین، 6 معذور اور 21 فلسطینی مزاحمت کار شامل ہیں۔
‘القدس ریسرچ سینٹر’ کی رپورٹ کے مطابق 72 فلسطینی غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری میں شہید ہوئے۔ 8 فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں جام شہادت نوش کرگئے جب کہ غزہ کے فادی البطش نامی ایک سائنسدان کو ملائیشیا میں قاتلانہ حملے میں شہید کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشرقی غزہ میں 30 مارچ 2018ء سے جاری فلسطینی احتجاجی مظاہروں میں جون 2019ء تک 250 فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں۔ان میں دو صحافی اور طبی عملے کے چار اہلکار بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں جاری حق واپسی مظاہروں کے دوران شہید ہونے والے اڑھائی سو فلسطینیوں میں 67 بچے ہیں جب کہ تین ایسے بچے بھی شہید کیے گئے جو ابھی اس دنیا نہیں آئے تھے۔ ان کی مائوں کی شہادت کےساتھ وہ بھی صہیونی ریاستی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
گذشتہ دوسال کے دوران 10 فلسطینی اسیران بھی شہیدہوئے۔ سنہ 1967ء کی جنگ کے بعد دوران حراست شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 220 ہوچکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان القدس کے بعد 29 فلسطینی شہداء کے جسد خاکی قبضے میں لیے گئے۔
ٹرمپ کے اعلان القدس کے بعد سب سے زیادہ فلسطینی غزہ کی پٹی میں شہید ہوئے۔ غزہ میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 370 ہے۔ اس کے بعد رام اللہ میں 17، الخلیل میں 14 اور بیت المقدس میں 10 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔