اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے سیاسی شعبے کے رکن اور جماعت کے شعبہ اسیران کے انچار موسیٰ دودین نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی نئی ڈیل نہیں طے پاتی تواس کی تمام ذمہ داری صہیونی ریاست اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو پرعاید ہوگی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے انٹرویو میں موسیٰ دودین نے کہا کہ اسرائیل کے انتہا پسند جو اس وقت نیتن یاھو کے ساتھ کھڑے ہیں وہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی شرائط پر قیدیوں کی نئی ڈیل نہیں چاہتے۔ اگر فلسطینی مجاھدین کے ہاں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلیوں کی رہائی کے بدلے میں حماس رہ نما یحییٰ السنوار کی پیش کش اور لچک کو بھی مسترد کردیا گیا تو اس کا ذمہ دار اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور ان کے انتہا پسند اتحادی ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ یحییٰ السنوار کی طرف سے اسرائیل کو ایک مناسب اور معقول پیش کش کی گئی ہے۔ یہ پیش کش ایک ذمہ دار فلسطینی رہ نما کی طرف سے پوری ذمہ داری کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ حماس اور فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے رائے عامہ اور لوگوں کے سامنے اپنی پیش کش پیش کردی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یحییٰ السنوار کی طرف سے پیش کردہ فارمولے کو قبول کرنے کے علاوہ اسرائیل کے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔ اگر اس پیش کش سے فایدہ نہ اٹھایا گیا تو اس کے نتائج کی تمام ذمہ داری اسرائیل پرعاید ہوگی۔
ایک سوال کے جواب میں موسیٰ دودین کا کہنا تھا کہ حماس کی طرف سے قیدیوں کے تبادلے کے لیے زیادہ قابل عمل فارمولہ پیش کرکے گیند اسرائیل کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے کسی بھی ڈیل کی ناکامی کی تمام تر ذمہ داری اسرائیل پرعاید ہوتی ہے۔ فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے قیدیوں کے تبادلے کے لیے ہرممکن لچک کا مظاہرہ کیا مگر اسرائیلی ریاست کی ہڈ دھرمی کے نتیجے میں کوئی سمجھوتہ طے نہیں پا سکا۔
انہوں نے کہا کہ حماس نے شروع دن سے سابقہ معاہدے کے تحت رہا کیے گئے فلسطینیوں کی دوبارہ پکڑ دھکڑ کی مخالفت کی تھی مگرفلسطینی مزاحمتی قوتوں کی طرف سے پیش کی گئی کسی پیش کش کا سنجیدگی سے جواب نہیں دیا گیا۔ اسرائیل نے سابقہ معاہدے کے تحت رہا کیے گئے فلسطینیوں کو دوبارہ حراست میں لے کراس معاہدے کی خلاف ورزی کی۔