شنبه 16/نوامبر/2024

برطانیہ سے فلسطینیوں ‌کو 7 کھرب ڈالر تاوان ادا کرنے کا مطالبہ

پیر 24-اگست-2020

فلسطین کے ایک معاشی اور سیاسی امور کےدانشور سمیر الدقران نے برطانیہ سے فلسطینی قوم کومجموعی طور پر 7 کھرب ڈالر ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

سرکاری دستاویزات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے الدقران نے کہا کہ یہ رقم 138 ملین فلسطینی پاؤنڈ کی مجموعی قیمت ہے جسے برطانیہ نے 1948 میں فلسطین پر اپنا قبضہ ختم کرنے کے بعد ضبط کیا۔

الدقران نے "قدس پریس” کو دی گئی اپنی رپورٹ میں  مزید کہا کہ 1917 میں  سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا۔ اس میں ترک کرنسی کے استعمال پر پابندی عائد کردی اور ایک مخصوص مدت کے لیے مصری اور انگریزی کرنسی کے استعمال کی اجازت دی گئی۔
اور انہوں نے کہا کہ 1927 میں برطانوی مندوب نے فلسطینی کرنسی کا فرمان جاری کیا جس کے مطابق ، فلسطینی پونڈ کے لیے مصری پونڈ کا تبادلہ ہوا  جو 1948 تک ملک کی کرنسی رہا اور فلسطین اسرائیلی قبضے میں آگیا۔

الدقران نے کہا کہ اس وقت برطانوی حکومت کے زیرانتظام  فلسطینی سنٹرل بینک تشکیل دیا گیا تھا  جو فلسطینی مالیاتی کونسل (بی اے ایس کے) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ بنک سونے کے ذخائر کے مطابق ایک پائونڈ کا سکہ جاری کرتا تھا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ فلسطینی مانیٹری کونسل کے قیام کے بعد  فلسطین ایک ممبر کی حیثیت سے سٹرلنگ ایریا میں بن گیا۔ پھر برطانیہ نے سینٹرل بینک میں موجود تمام فلسطینی فنڈز کو منجمد کر دیا اور برطانیہ میں "برٹش فنانشل ڈیفنس” نامی ایک قانون کے مطابق ان کے اخراج پر پابندی عائد کردی۔

الدقران نے اس بات پر زور دیا کہ جب 1948 میں فلسطین اسرائیلی قبضے میں آگیا ، برطانیہ نے فلسطینی مالیاتی کونسل میں موجود تمام رقم ضبط کرنے کے بعد اس کو سٹرلنگ ایریا سے بے دخل کردیا گیا ، جس کی قیمت ایک ہزار ٹن خالص سونا تھی اور اسے لندن بھیجا گیا تھا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ موجودہ وقت میں ان فنڈز کی مالیت 80 ارب ڈالر جبکہ 72 منجمد  رکھنے کی وجہ سے  اس کی مجموعی قیمت 7 کھرب ڈالر ہے۔

انہوں نے تصدیق کی کہ ان کے پاس ان حقائق کی تصدیق کی دستاویزات موجود ہیں جن کے بارے میں انھوں نے انکشاف کیا تھا۔ یعنی اس وقت کی فلسطینی مالیاتی کونسل کی سیریل رپورٹس کے مطابق اردن اور اسرائیل کے پاس فلسطینی پاؤنڈ میں سے جو کچھ برآمد ہوا  وہ انہی ملکوں کے پاس ہے۔
فلسطینی معاشی ماہر نے زور دے کر کہا کہ یہ فنڈز فلسطینی عوام کا حق ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فلسطینی حقوق اور برطانوی استعمار کے ہاتھوں  ضبط شدہ ذخائر ہیں  اور انہیں فلسطینیوں کو واپس کرنا چاہئے۔

برطانوی فوج نے 1917 میں تمام فلسطین پر قبضہ کرلیا  اور برطانیہ نے اسے "لیگ آف نیشنز” (اقوام متحدہ سے پہلے والی ایک بین الاقوامی تنظیم) سے سپرد کیا تھا۔ فلسطین میں مینڈیٹ برطانوی ہائی کمشنر کے زیر انتظام تھا جس نے اس میں تمام انتظامی اور قانون سازی  کےاختیارات استعمال کیے تھے۔

1948 میں برطانیہ نے فلسطین چھوڑ دیا اور صیہونی گروہوں نے فلسطینی اراضی پر قبضہ کرلیا جس پر انہوں نے "اسرائیل” قائم کیا۔

مختصر لنک:

کاپی