جمعه 15/نوامبر/2024

خالد مشعل نے قومی مفاہمت کے لیے تین نکاتی فارمولہ پیش کر دیا

اتوار 8-نومبر-2020

اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’  کے پولیٹیکل بیورو کے سابق سربراہ خالد مشعل نے فلسطینی دھڑوں میں مفاہمت کے حصول کے لیے تین اقدامات کا خاکہ پیش کیا ہے۔ انہوں‌نے  فلسطینی اتھارٹی کی نئی تعریف اور اس کی ذمہ داریوں میں تبدیلی کا مطالبہ کیا۔

خالد مشعل نے  ہفتے کی شام فلسطینی مرکز برائے پالیسی ریسرچ اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز (مسارات) کو دیئے گیے ایک انٹرویو میں کیا۔ انہوں‌نے فلسطینی دھڑوں میں مفاہمت کے حصول کے لیے حقیقی، موثر اور نتیجہ خیز اقدامات کریں۔ انہوں‌نے تمام فلسطینی قوتوں کی نمائندگی پرمشتمل سیاسی شراکت پر زور دیا۔ سیاسی فیصلوں میں قومی شراکت  داری، اس بنیاد پر اقدامات کو تیز کرنے، انتظامی اور سیاسی امور میں غزہ اور غرب اردن میں ایک ڈھانچہ تشکیل دینے پر زور دیا۔

انہوں‌نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر ابو مازن نے جب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کےاقدامات کو دیکھا تو وہ مفاہمت کی طرف پلٹے۔ ہم ان کی مفاہمتی سوچ پران کے شکر گذارہیں مگر میں ان پر زور دیتا ہوں کہ وہ مفاہمت کا عمل جاری رکھیں۔

انہوں نے اشارہ کیا کہ یہاں کئی رکاوٹیں  ہیں جو مفاہمت کےلیے مشکل پیدا کررہی ہیں۔ کچھ بیرونی ہیں  اور کچھ داخلی رکاوٹیں ہیں۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ فلسطینی جماعتوں پر متعدد خدشات ہیں۔ ان میں سیاسی طور پر متضاد دو پروگراموں ‘مزاحمت اور مذاکرات’ سے متعلق خوف شامل ہے۔ دوسرا خوف سیاسی فیصلے میں شراکت داری اور پوزیشن کے معاملے پر ہے۔ مگر اس حوالے سے تحریک فتح کی زیادہ ذمہ داریاں ہیں۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جو پہلے تنظیم ، اختیارات اور فیصلہ ساز اداروں میں موجود ہے۔

انہوں نے مذاکرات کی ناکامی اور مزاحمت کی ناکامی کے مابین موازنہ کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اوسلو ناکام رہا اور مذاکرات ناکام ہوگئے ۔یہ خیال نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مزاحمت ناکام ہوگئی ہے ، کیونکہ غزہ ہمارے فخر کا موضوع ہے۔ مشعل نے تصدیق کی کہ فلسطینیوں کو سلامتی اور  اسرائیل سے سیکویرٹی تعاون کی آڑ میں ے مغربی کنارے میں مزاحمت سے انکار کیا گیا ہے۔

فلسطینی رہ نما نے کہا کہ فلسطین کے مسئلے کے سامنے کئی آپشنز  ہیں۔ ان میں سے ایک اتھارٹی کو تحلیل کرنے کا آپشن ہے ، لیکن فلسطینی اتھارٹی کو ہر ایک کے مشترکہ اتفاق رائے کے بغیرنہیں کیا جائے گا۔

مشعل نے متنبہ کیا کہ ایک واحد مرکزی قومی انتظامیہ ،غزہ کا انتظام کرنے کے معاملے پر فلسطینیوں کے اتفاق رائے کی ضرورت ہے، اس امر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی عوام 1948 میں مقبوضہ فلسطین کے اندر اور مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں مختلف صورتحال میں رہتے ہیں۔
مشعل نے اتھارٹی کی نئی وضاحت اور اس کے فنکشن کو تبدیل کرنے کے آپشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہم محاذ آرائی کےخلاف ہیں  اور سیاسی عمل میں شراکت داری کے اصول پرقائم ہیں۔ نیز سیاسی فیصلے جس میں ہم حصہ لیتے ہیں۔ 

فلسطین کی موجودہ صورتحال کے بارے میں اپنے جائزہ کے بارے میں  مشعل نے کہا فلسطینی نصب العین کو اندرونی اور بیرونی سطح  سےخطرات درپیش ہیں۔ بیرونی خطرات میں امریکا اور اسرائیلی فیصلے سرفہرست ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی