اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے سیاسی شعبے کے سابق سربراہ خالد مشعل نے کہا ہے کہ ان کی جماعت فلسطین کے دیگر اپنے ہم خیال گروپوں اور جماعتوں کے ساتھ مل کر القدس اور فلسطین کی آزادی کے لیے اپنے اصولی مطالبات پرعمل درآمد کرانے کی کوششیں جاری رکھے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور فلسطینی قوم کے بنیادی انسانی حقوق کو نظرانداز کرنے والے ممالک گھاٹے میں رہیں گے۔
غزہ کی پٹی سے شائع ہونے والے ایک عربی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں خالد مشعل نے کہا کہ حماس ایک طرف فلسطینی قوم کے تمام نمائندہ طبقات کو ایک فورم پرجمع کرکے فلسطینی قوت کو مجتمع کررہی ہے اور دوسری طرف پوری مسلم امہ کے اتحاد کی خواہاں ہے۔ اندرون اور بیرون ملک حماس کی توجہ صرف فلسطینی قوم کے مستقبل اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہے۔ فلسطینی قوم میں وحدت اجتماعی فلسطینی فیصلے کے خلاف نہیں۔
انہوںنے کہا کہ مرحوم یاسر عرفات نے فلسطینی قوم کے اجتماعی فیصلے میں مداخلت روکنے کی کوشش کی تھی۔
ایک سوال کے جواب میں خالد مشعل نے کہا کہ حماس نے قومی شراکت کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ حماس قومی اصولوں پرعمل درآمد یقینی بنانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ مزاحمت کے آپشن پربھی قائم ہے۔
حماس رہ نما نے کہا کہ بعض ممالک کی طرف سے ہمیں سمجھوتے کےلیے دبائو اور لالچ پیش کیا گیا۔ اگر ہم مغرب کی طرف سے پیشکشوں کے مطابق کام کرتے اور مشرقی دنیا کو چھوڑ دیتے تو ہمیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی۔
فلسطین کے اندرونی محاذ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خالد مشعل نے کہا کہ جماعت کا ایک مکمل شورائیت کا نظام ہے اور ہر چار سال کے بعد جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ جماعت کی قیادت کا انتخاب کرتی ہے۔
عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں خالد مشعل کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ملک نقصان میں رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک نے واضح کردیا ہے کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے؟۔