جمعه 15/نوامبر/2024

فلسطینی تاریخ مسخ کر کے پروان چڑھنے والی دہشت گرد صہیونی ریاست

ہفتہ 31-اگست-2024

غزہ کی پٹی کی قدیم ترین مساجد میں سے خان یونس کی مسجد کبیر کو شہید کرنا اسرائیلی قابض فوج کا پہلے سے تیار کردہ منصوبہ تھا۔ یہ اسرائیل کے فاشسٹ اور نسل پرستانہ ڈھانچے کے ایک نئے ثبوت کے سوا کچھ نہیں جو اس کی جانب سے تاریخ مسخ کرنے کی پالیسی پر مبنی ہے۔ اپنے قیام سے پہلے کے تاریخی اور جغرافیائی حقائق کو جھٹلاتے ہوئے جب اس نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ فلسطین ایک قوم کے بغیر محض خطہ زمین ہے۔

جب سے صہیونی غنڈوں نے 76 سال قبل فلسطینی دیہاتوں اور قصبوں پر حملہ کیا ہے، وہ فلسطین کی یہودیت کو ثابت کرنے کے لیے درجنوں آثار قدیمہ اور مساجد کو مسمار کر چکے ہیں، جن میں سے اکثر قابض ریاست کے قیام سے کئی دہائیاں پہلے کی ہیں۔

غزہ کی پٹی پر سات اکتوبر 2023 سے جاری جنگ میں قابض فوج 565 مساجد کو شہید کر چکی ہے جن میں 243 مساجد مکمل طور پر مسمار ہو چکی تھیں۔ ان میں سے تین آثار قدیمہ ہیں جو بازنطینی، رومن اور مصری حکومت کے دوران ثقافت اور تجارت کے ایک اہم مرکز کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔

98 سال قبل تعمیر ہونے والی یہ مسجد جنوبی غزہ کی پٹی میں خان یونس کی اہم ترین نشانیوں میں سے ایک ہے جس کے پتھر اور مینار 1928 سے فلسطینی تاریخ اور اس کے سیاسی اتار چڑھاؤ کے شاہد ہیں۔

مسجد شہر کے مرکز میں واقع ہے اور اس کا رقبہ تقریباً 3300 مربع میٹر ہے۔ یہ ایک تعمیر شدہ حصے پر مشتمل ہے جسے مسجد کا صحن کہا جاتا ہے، جس کا رقبہ 900 مربع میٹر ہے، مسجد کے صحن کے باہر اس کا کچھ حصہ چھت سے ڈھکا ہوا ہے اور صحن کے دونوں جانب کھلا احاطہ واقع ہے۔

مسجد کی طول کے برابر ان دونوں احاطوں میں سے ہر ایک مسجد کے داخلی دروازے سے شروع ہوتا ہے، ایک کا اختتام وضوخانے جبکہ دوسرا مسجد کی لائبریری پر ختم ہوتا ہے، ہر ایک کا رقبہ تقریباً 500 مربع میٹر ہے۔

تاریخی حوالوں میں بتایا گیا ہے کہ یہ مسجد اس وقت تعمیر کی گئی تھی جب برقوق قلعہ شہزادہ یونس بن عبداللہ النرزی الدودار کے دور حکومت میں سرکیسیان مملوک ریاست کے بانی سلطان برقوق کی درخواست پر بنایا گیا تھا۔

قلعہ ایک مکمل سرکاری کمپلیکس کی شکل میں تعمیر کیا گیا تھا جس کی دیواروں پر ایک مسجد اور ایک سرائے اور چار حفاظتی برج  بھی شامل تھے۔

عثمانی اسلامی حکومت کے دور میں، 1920 میں خلافت کے خاتمے تک مسجد کی وسیع اراضی کو فوج کے گودام کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا، اور آٹھ سال بعد مسجد کی توسیع کی گئی۔

حاجی محمد الآغا (68 سال) کا کہنا ہے کہ عظیم الشان مسجد جدوجہد کی عظیم علامت ہے، کیونکہ خان یونس شہر میں قومی جدوجہد کے طویل عرصے کے دوران شہداء کے بیشتر جنازے اسی سے اٹھے۔

آغا کے مطابق مسجد مختلف سیمینارز اور لیکچرز کے انعقاد کا ایک مرکز بھی تھا۔انہوں نے بتایا کہ اس کی مسماری نے انہیں بہت رنج اور تکلیف دی ہے۔

گرینڈ عمری مسجد

غزہ شہر کے مشرق میں الدرج محلے میں پرانے شہر کے قلب میں واقع عظیم العمری مسجد مکمل طور پر مسمار ہوچکی ہے۔ اسے فلسطین کی سب سے اہم اور قدیم تاریخی مساجد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

مسجد کا رقبہ 4100 مربع میٹر ہے اور اس میں بارہویں صدی عیسوی کے رومی طرز کا فن تعمیر نظر آتا  ہے۔ تعمیر میں استعمال ہونے والے کچھ کالم مسمار شدہ گرجا گھروں کی باقیات سے لائے گئے تھے۔ یہ اپنی مضبوط ساخت، سنگ مرمر کے خوبصورت کالموں، نوشتہ جات اور مملوک اور عثمانی عہد سے متعلق سجاوٹ کے لیے مشہور ہے۔

تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ مسجد کی تعمیر 6 تاریخی مراحل سے گزری، اور یہ کہ اس کی پوری تاریخ میں اس کی مختلف حیثیتیں رہی تھیں۔

ابتدا میں یہ بت پرستوں کا مندر تھا، پھر اسے بازنطینی چرچ میں تبدیل کر دیا گیا، پھر اسلامی فتح کے بعد خلیفہ عمر بن الخطاب کے دور میں اسے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا اور اس مسجد کا نام ان سے منسوب کر دیا گیا۔ پھر صلیبی جنگوں کے دوران اس کے کچھ حصوں کو تباہ کر دیا گیا اور اسے دوبارہ چرچ میں تبدیل کر دیا گیا مگر مملوک دور میں سلطان الظاہر بیبرس نے اسے دوبارہ بحال کر دیا۔

 سلطان ناصر الدین محمد بن قلاون اور عثمانی ادوار کے دوران اس کی توسیع کی گئی۔

سید ہاشم مسجد

سید ہاشم مسجد تیسری تاریخی مسجد ہے جسے غزہ پر جاری جنگ کے دوران اسرائیلی فوج نے جزوی نقصان پہنچایا۔

یہ مسجد درج میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً 2400 مربع میٹر ہے۔ اسے غزہ کی سب سے خوبصورت اور قدیم ترین مساجد میں شمار کیا جاتا ہے۔ سید ہاشم مسجد میں اس کے گنبد کے نیچے ایک مزار شامل ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پردادا ہاشم بن عبد مناف کی قبر ہے۔

موجودہ عمارت مملوک طرز تعمیر میں عثمانی دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ مسجد کا افقی مخطوط حصہ درمیان میں ایک کھلے مربع صحن کو ظاہر کرتا ہے، جس کے چاروں طرف تین بیرونی نمازی ہال ہیں۔

مسجد کا مرکزی نماز ہال تقریباً مربع شکل کا ہے ا۔ مسجد میں ایک محراب ہے جس کا رخ قبلہ کی طرف ہے اور ایک منبر ہے جسے 1850ء میں عثمانی سلطان عبدالمجید کی سرپرستی میں مرمت کیا گیا تھا۔

مسجد ابن عثمان

ابن عثمان مسجد مشرقی غزہ میں شجاعیہ محلے کے قلب میں واقع ہے، جو شہر کا سب سے بڑا اور قدیم محلہ ہے۔ اس مسجد کو "عظیم” عمری مسجد کے بعد پٹی کی دوسری بڑی تاریخی مسجد سمجھا جاتا ہے۔

 600 سال سے زائد عرصہ قبل تعمیر ہونے والی اس مسجد کا مکینوں کی زندگیوں پر اہم اثر رہا ہے، شجاعیہ محلے کے مکین اس مسجد کو اس کے بڑے رقبے اور مرکزی محل وقوع کی وجہ سے "عظیم مسجد” کہتے ہیں۔

مسجد کو پچھلی جنگوں میں حملوں اور مسماری کا نشانہ بنایا گیا تھا، اور 8 دسمبر 1987 کو شروع ہونے والے انتفاضہ کے دوران اسے قابض افواج کے ساتھ تصادم کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔

تاریخ اور آثار قدیمہ کی محقق نریمن خلہ کے مطابق، مملوک طرز کی اس مسجد کا رقبہ 2000 مربع میٹر ہے۔ اس میں سے 400 مربع میٹر اس کے مرکزی صحن کا رقبہ ہے اور اس کے دو عجیب دروازے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ مسجد کا نام شہاب الدین بن عثمان کے نام پر رکھا گیا تھا۔ وہ غزہ شہر کے ایک عالم دین، تھے جو کہ اصل میں شمالی مغربی کنارے کے شہر نابلس کے رہنے والے تھے۔

 ابن عثمان نے غزہ میں مسجد کو الخلیل شہر میں واقع اسی طرح کی ایک اور مسجد کی طرز پر تعمیر کیا تھا تاکہ فلسطینی شہر ایک دوسرے سے جڑے رہیں۔ یہ حرم ابراہیمی کے بعد الخلیل شہر کی قدیم ترین مسجد سمجھی جاتی تھی۔

الظفر مسجد

اسرائیلی تباہی سے الظفر دمری مسجد بھی متاثر ہوئی جسے بالکل زمین بوس کر دیا گیا۔ مسجد کا تعلق مملوک دور سے ہے۔ آٹھویں صدی ہجری میں، اس کی بنیاد مملوک شہزادے شہاب الدین احمد بن ازفیر الظفر دمری نے 762 ہجری میں رکھی تھی۔

مسجد کا رقبہ 600 مربع میٹر ہے جسے عام لوگوں میں القزدمری کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس میں شہاب الظفر دمری کا مقبرہ ہے۔

صرف مساجد ہی اسرائیل کا نشانہ نہیں بن رہیں قابض فوج نے جان بوجھ کر قدیم محلوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ جن میں  بازار، سرائے، عوامی حمام، تاریخی قبرستان اور گرجا گھر شامل ہیں۔

جن مقامات کو منظم طریقے سے تباہ کیا گیا ان میں چرچ آف سینٹ پورفیریس، سمرہ کا حمام، سینٹ ہلاریون کی خانقاہ، بازنطینی چرچ، تاریخی پاشا محل کا عجائب گھر، کمالیہ مدرسہ اور مقام خضر شامل ہیں۔

تاریخی فلسطینی شناخت کی تباہی اور کچلنا اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے، جیسا کہ 1907 کے ہیگ ریگولیشنز کے چوتھے پیراگراف (ضمیمہ چار) کے آرٹیکل نمبر 27 میں کہا گیا ہے کہ محاصرے کے وقت افواج کا فرض ہے کہ وہ عبادت، فنون، علوم، رفاہی کاموں اور تاریخی یادگاروں کے لیے بنائی گئی عمارتوں کو نقصان پہنچانے سے بچنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں۔

1954 کے ہیگ ریگولیشنز کے آرٹیکل 56 میں عبادت، عوامی مقامات، یا تاریخی عمارتوں کے لیے مختص کسی بھی پتھر یا توڑ پھوڑ کی بھی ممانعت ہے۔

1977 کے چوتھے جنیوا کنونشن کے اضافی پروٹوکولز، پروٹوکول I کے آرٹیکل نمبر 53 اور پروٹوکول II کے آرٹیکل نمبر 16 میں، تاریخی یادگاروں، آرٹ اور عبادت گاہوں کے خلاف کی گئی کسی بھی معاندانہ کارروائی کے ارتکاب پر پابندی شامل ہے، جو لوگوں کی روحانی میراث ہے۔

مختصر لنک:

کاپی