اسلامی تحریک مزاحمت[حماس] کے مسلح ونگ عزالدین القسام بریگیڈ نے حالیہ غزہ کی لڑائی میں اتوار کے روزاپنے چار اہم رہنماؤں کے شہید ہوجانے کا اعلان کیا۔ یہ جنگ 7 اکتوبر کو شروع ہوئیتھی اور 26 نومبر کو اس جنگ کا 51 واں دن تھا۔ 48 دن لڑائی جاری رہی اور پھر تیندن سیز فائر کے گزرے۔ پیر کے روز جنگ بندی معاہدے کے چوتھا اور آخری دن ہوگا۔ منگلکی صبح 7 بجے جنگ بندی معاہدہ ختم ہو جائے گا۔
ٹیلی گرام پرعزالدین القسام بریگیڈز کے آفیشل چینل پر شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہالقسام بریگیڈز اپنے رہنماؤں کے ایک گروپ کی شہادت کا اعلان کر رہا ہے۔ ان کمانڈرزمیں عسکری ونگ کے رکن ابو انس احمد الغندور، شمالی بریگیڈز کے کمانڈر وائل رجب،کمانڈر رفعت سلمان اور کمانڈر ایمن الصیام شامل ہیں۔
اسرائیلی ٹی وی چینل13 نے ایک ذریعہ کے حوالے سے بتایا کہ 25 نومبر کو اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میںدوبارہ فوجی آپریشن شروع کرنے کے لیے اپنی تیاری کرلی تھی۔ یہ آپریشن اس صورت میںکیا جانا تھا اگر حماس مقامی وقت کےمطابق آدھی رات تک اسرائیلی یرغمالیوں کی دوسریکھیپ کو رہا نہ کرتی۔
قبل ازیں”عزالدین القسام بریگیڈز” نے یرغمالیوں کی دوسری کھیپ کے حوالے کرنے میںاس وقت تک تاخیر کا اعلان کیا تھا جب تک کہ اسرائیل شمالی غزہ کی پٹی میں امدادیٹرکوں کے داخلے سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کردیتا اور معاہدے کی پاسدارینہیں کرتا۔
ٹائمز آف اسرائیلنے ایک باخبر ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیل کو ان قیدیوں کی فہرست موصول ہوگئی ہے جنہیں آج اتوار کو رہا کیا جانا تھا۔ اخبار کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکامنے حراست میں لیے گئے افراد کے اہل خانہ کو آگاہ کرنا شروع کیا جن کے نام قطر کیطرف سے سونپی گئی فہرست میں شامل تھے۔ یاد رہے قطر اسرائیل اور تحریک حماس کے درمیانقیدیوں کے تبادلے کے معاہدے میں ثالث ہے۔
قطری وزارت خارجہکے ترجمان ماجد الانصاری نے اپنے ملک کی اس امید کا اظہار کیا کہ اسرائیل اور حماسکے درمیان جنگ بندی کو چار دن پر طے شدہ اتفاق سے آگے بڑھایا جائے گا۔ ماجدالانصاری نے کہاکہ ہمیں جس چیز کی امید ہے وہ یہ ہے کہ دو دنوں کے دوران رہائی کیرفتار اور اس چار روزہ معاہدے سے ہمیں جنگ بندی میں توسیع کرنے اور باقی یرغمالیوںکے بارے میں مزید سنجیدہ بات چیت کرنے کا موقع ملے گا۔
انہوں نے مزیدکہا کہ وہ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے تنازع کے دونوں فریقوںکے خدشات کو دور کرنے کے لیے قطر میں سینئر حکام کے ساتھ کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔