جولائی 2020ء کے اوائل میں اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے سیاسی شعبے کے سابق صدر خالد مشعل نے ایک انٹرویو میں اپنا اقتصادی ویژن پیش کیا۔ اس ویژن میں انہوں نے قابض صہیونی دشمن کے خلاف فلسطینیوں کے اجتماعی عمل اور قومی وحدت سمیت دیگر پہلوئوں پر زور دیا گیا۔
ان کا یہ انٹرویو نما ویژن’ فلسطینی قوم، سنچری ڈیل اور الحاق کے منصوبے کا کا مقابلہ کرنے کے ذرائع’ کو عنوان دیا گیا۔ اپنے اس ویژن میں خالد مشعل نے فلسطین کی تمام نمائندہ قوتوں پر مشتمل قومی پروگرام تشکیل دینے، یہودی آباد کاری کا متفقہ کوششوں سے مقابلہ کرنے، الحاق کے اسرائیلی سازشی پلان اور امریکی صدر کے سنچری ڈیل نامی سازشی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے پروگرام پیش کیا گیا۔
خالد مشعل کے قومی ویژن پر فلسطینی ماہرین کی آرا کی روشنی میں مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک جائزہ پیش کیا ہے۔اس حوالے سے مختلف ماہرین کی آرا کو شامل کیا گیا ہے۔ فلسطینی تجزیہ نگار ساری عرابی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے مشعل کےویژن، اس کی اہمیت، اس کے عملی نفاذ کے میکا نزم اور اس کے قابض اسرائیلی ریاست پر مرتب ہونے والے اثرات روشنی ڈالی۔
ساری عرابی عالم اسلام اور عرب ممالک کے معامصر بڑے مسائل پر گہری بصیرت رکھتے ہیں۔ وہ غرب اردن کی بیرزیت یونیورسٹی میں معاصر عرب اسٹڈی کے فاضل ہیں۔
عرابی کا کہنا ہے کہ خالد مشعل کا ویژن بنیادی طور پر فلسطین میں سرکاری سطح پر اقدامات کا متقاضی ہے۔ تحریک فتح ، تنظیم آزادی فلسطین اور فلسطینی اتھارٹی ہی اگر چاہیں تو مشعل کے ویژن کو نافذ کرسکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں عرابی نے کہا کہ خالد مشعل نے اپنے قومی ویژن میں جو تجاویز پیش کی ہیں وہ زمینی صورت حال میں انتہائی مناسب ہیں۔ مگر اس ویژن کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ انتظامی ادارے ہیں جن کے پاس اختیارات اور اقتدار ہے۔ حقیقی معنوں میں وہی اس ویژن کا روڑہ بن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خالد مشعل کا تیار کردہ ویژن حماس نے پہلی فرصت میں اپنا لیا ہے۔ یہ صرف ابو الولید کا نہیں نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں یہ حماس کا ویژن ہے مگر یہ غرب اردن میں اس وقت تک نافذ نہیں ہوسکتا جب تک فلسطینی اتھارٹی اس کے نفاذ کے اقدامات نہیں کرے گی۔ اسے نافذ کرنے کا سب سے بڑاکام فلسطینی اتھارٹی کو کرنا ہے۔ اگر رام اللہ اتھارٹی اس ویژن کو اپنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو غزہ کی پٹی میں یہ خود ہی نافذ ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ خالد مشعل نے اپنے ویژن میں عالمی برادری اور عرب ممالک کےحوالے سے جو تجاویز پیش کی ہیں وہ صرف فلسطینی اتھارٹی ہی اپنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر خالد مشعل نے اس ویژن پر عرب ممالک اور عالمی برادری سے بات کرنے کو کہا گیا ہے۔ یہ بات چیت صرف فلسطینی اتھارٹی کرسکتی ہے۔ علاقائی اور عالمی سطح پر جو کام فلسطینی اتھارٹی ایک مقتدر ادارے اور سرکای حیثیت سےکرے گی اسے قبولیت حاصل ہوگی۔ فلسطینی اتھارٹی کو خالد مشعل کے ویژن کو آگے بڑھانے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر رام اللہ حکومت اس حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھاتی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ رام اللہ انتظامیہ اس کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں سامی عرابی نے کہا کہ خالد مشعل کا ویژن موجودہ حالات میں انتہائی مناسب اور معقول فارمولہ ہے۔ اس میں فلسطینی قوم کی وحدت کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے جو کہ فلسطینی قوم کی ہر وقت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح انہوں نے ویژن میں آزادی کے کے تمام محاذوں پر مشترکہ جدو جہد پر زور دیا ہے اور تمام قومی سرگرمیوں میں پوری قومی قیادت کو شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ مشترکہ قومی پروگرام تنظیم آزادی فلسطین کے ڈھانچے کے تشکیل نو کا متقاضی ہے۔ تمام فلسطینیوں کو قومی کاذ کےایک سیاسی ایجنڈے پر متفق ہونا ہوگا۔ اس وقت تنظیم آزادی فلسطین ہی عالمی سطح پر فلسطینیوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس لیے اس میں پوری فلسطینی قوم کو شامل ہونا ہوگا۔
عرابی نے افسوس کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ تمام قومی قوتوں میں اتفاق رائے موجود نہیں۔ غرب اردن، غزہ اور القدس کے علاقوںکی قیادت الگ الگ ہے۔
عر ابی کا مزید کہنا تھا کہ خالد مشعل کا ویژن کسی پارٹی کا نقطہ نظر نہیں بلکہ اسے قومی اہمیت کا حامل ویژن قرار دینا چاہیے۔ اگرچہ یہ ویژن حماس کے سابق صدر کی طرف سے تیار کیا گیا ہے مگر اس پر کسی فلسطینی تنظیم، جماعت یا شخصیت کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔
ویژن کے اسرائیلی ریاست پر مرتب ہونے والے اثرات پر بات کرتے ہوئے عرابی نے کہا کہ مشعل نے اپنے ویژن میں غرب اردن کے اسرائیل سے الحاق کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے قومی وحدت کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اگر فلسطینی قوتوں کی صفوں میں اتحاد اور یکجہتی قائم ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں صہیونی ریاست کا غرب اردن کے الحاق کا منصوبہ ناکام ہوسکتا ہے۔اس طرح اس کے صہیونی ریاست پر گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔