ایسے ہی بہادر اور بےباک رہ نمائوں میں ایک خاتون قلم کار، سماجی کارکن اور جہاد آزادی کی قلمی مجاھدہ لمیٰ خاطر بھی ہیں جو فلسطینی قوم کے حقوق کے لیے قلمی جہاد کی پاداش میں بار بار صہیونی زندانوں میں پابند سلاسل کی جاتی ہیں مگر اس نے پورے عزم اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیلی ریاست کے تمام مظالم اور وحشیانہ بربریت کا بھرپور مقابلہ شروع کر رکھا ہے۔
لمیٰ خاطر 13 ماہ انتظامی حراست کی پالیسی کے تحت اسرائیلی زندانوں میں قید رہیں مگر صہیونی زندانوں میں اسیری کا عرصہ ان کے قلمی جہاد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکا ہے۔ انہوں نے تمام تر مظالم برداشت کرنے کےبعد ایک بار پھر فلسطینی قوم کے حقوق کے لیے قلمی جہاد کے میدان اور سماجی خدمات جاری رکھنے کےعزم کا اعادہ کیا ہے۔
اسرائیلی عقوبت خانے سے رہائی کے بعد مرکزاطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے لمیٰ خاطر نے کہا کہ اسے صہیونی ریاست کے مظالم کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ تمام تر مظالم کے باوجود قلمی جہاد کا مقدس مشن جاری رکھیں گی۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی زندانوں میں زیرحراست فلسطینی اسیر مائیں، بہنیں اور بیٹیاں بدترین مظالم کا سامنا کررہی ہیں۔ ان کی مشکلات ناقابل بیان ہیں اور ان کے ساتھ برتا جانے والا سلوک غیرانسانی درجے میں آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسیرات اسرائیلی زندانوں سےرہائی کے لیے پرامید ہیں۔
فلسطینی قلم کارہ لمیٰ خاطر نے کہا کہ صہیونی حکام نے جیلوں میں قید کی گئی خواتین کو دنیا سے الگ تھلگ قید تنہائی ڈال رکھا ہے۔ تمام تر مشکلات، اسیری کی کٹھن پریشانیوں اور سختیوں کے باوجود وہ صہیونی زندانوں کا مردانہ وار مقابلہ کررہی ہیں۔
سابق اسیرہ لمیٰ خاطر 13 ماہ تک صہیونی زندانوں میں پابند سلاسل رہی۔ اس کا کہنا ہےکہ مجھے اپنی رہائی کی خوشی نہیں۔ میری خوشی اس وقت مکمل ہوگی جب اسرائیلی زندانوں میں قید میرے تمام فلسطینی بہن بھائی آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوں گے۔ میرا بیٹا اسامہ الفاخوری بھی اسرائیلی زندانوں میں قید ہے۔ ان تمام اسیرات اور اسیران کی رہائی سے ہی ہماری خوشی مکمل ہو سکتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں لمیٰ خاطر نے کہا کہ اسرائیلی زندانوں میں قید فلسطینی خواتین آزادی کی منتظر ہیں۔ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں رہا جب اسرائیلی جیلوں میں قید تمام فلسطینی اسیر بھائی اور بہینیں رہائی کی نعمت سے بہرہ مند ہوں گی۔ انہوں نے بتایا کہ صہیونی زندانوں میں مجھے مسلسل 32 دن تک غیرانسانی سلوک اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ مگرصہیونیوں کے تمام تر مظالم مجھے اپنے قلمی جہاد کے عظیم اور مقدس مشن سے باز نہیں آسکتے۔
انہوں نے اسیرات اور اسیران کے ساتھ مکمل یکجہتی کے اظہار پر زور دیا اور کہا کہ پوری فلسطینی قوم کو اسرائیلی زندانوں میں قید اپنے بہن بھائیوں کی رہائی کے لیے موثر کوششیں کرنی چاہئیں۔
ایک سوال کے جواب میں لمیٰ خاطر نے کہا کہ اسرائیلی زندانوں میں قید فلسطینی خواتین کے ساتھ غیرانسانی ہی نہیں بلکہ غیر مہذب اور غیراخلاقی برتائو کیا جاتا ہے۔ انہیں پرائیسویسی میں رہنے کی اجازت نہیں اور اسیرات کو ان کے اہل خانہ سےملنے کی اجازت بھی کم ہی دی جاتی ہے۔
مظالم قلمی جہاد سے نہیں روک سکتے
ایک سوال کے جواب میں لمیٰ خاطر نے کہا کہ میں مزاحمت کی حمایت میں پہلے بھی قلمی جہاد کرتی رہی ہوں اور اب بھی یہ جہاد بغیر کسی تعطل کے جاری رہے گا۔ اسرائیلی مظالم مجھے میرے قلمی جہاد کے عظیم مشن باز نہیں رکھ سکتے۔
انہوں نے کہا کہ قلم کاری اورقلمی جہاد نے مجھے ایک نئی زندگی دی ہے۔ میرا دشمن اگر میرے خلاف ہوا ہے تو اس کا سبب میرا قلم ہے۔ میں جیل میں رہ کر بھی قلمی جہاد پرقائم رہی ہوں اور اب بھی یہ مشن جاری رکھوں گی۔
دوران حراست تفتیش کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں لمیٰ خاطر نے کہا کہ گرفتاری کے بعد مجھے مسلسل 32 دن تک غیرانسانی ماحول میں رکھا گیا۔ مجھے مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور میرے عزم کو شکست دینے کی ہرممکن کوشش اور تمام مکروہ حربے استعمال کیے گئے۔