ایک سرکردہ یہودی تاریخ دان نے خبردار کیا ہے کہ ارض فلسطین میں صہیونی پروگرام غرق ہوچکا۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کی زندگی سے ’ٹائٹانک‘ بحری جہاز میں سوار مسافروں کی زندگی زیادہ بہتر اور محفوظ تھی۔ اگر ٹائیٹانک سمندر میں غرق ہوگیا تو صہیونیت کا پروگرام بھی غرق ہوچکا ہے۔
الجزیرہ فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے سرکردہ یہودی دانشور نے کہا کہ اسرائیل میں بسنے والے یہودیوں کو اندازہ نہیں کہ وہ خطرناک زندگی بسر کررہے ہیں۔ اگر یہودیوں کو اندازہ ہو کہ وہ کس طرح پرخطر جگہ پر رہ رہے ہیں وہ فورا فلسطین چھوڑ دیں۔
یہودی دانشور ایلان بابی نے کہا کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جتنے بھی امن پلان پیش کئے گئے ان میں فلسطینی قوم کے مفادات کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ خود فلسطینیوں کے پاس بھی ایسا کوئی موثر ویژن نہیں۔ میری خواہش ہے کہ فلسطینی ملک میں ایک ہی جمہوری ریاست کے تصور کی حمایت کریں۔
امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کے اعلان پر بات کرتے ہوئے یہودی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا بین الاقوامی قوانین کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے مگر امریکا کے اس فیصلے کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے۔ نیز صہیونی مسیحی اس اقدام کی حمایت کررہے ہیں۔
ایلان بابی نے کہا کہ ٹرمپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امن صرف امریکا کے ہاتھ مں ہے اور امریکا وہی امن فارمولہ پیش کرے گا جس میں فلسطینیوں کے بجائے اسرائیل کا مفاد ہو۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کی موجودہ حکومت اور تمام سابقہ حکومتیں ایک ہی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہیں۔ ان میں سے کسی نےبھی فلسطینی قوم کے حقوق یا مفاد کے بارے میں نہیں سوچا بلکہ فلسطینیوں کو ہمیشہ دھوکہ دیا گیا۔
یہودی تجزیہ نگار نے کہا کہ میرے خال میں فلسطینی دو ریاستی حل کا مطالبہ کرکے غلطی کر رہےہیں۔ ایک دن انہیں احساس ہوگا کہ وہ دو ریاستی حل کے غلط مطالبے پر تھے۔ انہیں دو ریاستی حل کے بجائے فلسطین میں ایک جمہوری ریاست کے تصور کو قبول کرنا چاہیے۔
بابی کا کہنا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا صدر مقام تسلیم کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ امریکا کو فلسطینیوں کی آزاد ریاست کے قیام میں کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی وہ دو ریاستی حل کے معاملے میں اسرائیل پر دباؤ ڈال رہا ہے۔