’ یہ بھی کیا کم ہے جو ہوتی ہے مساجد میں اذان
اس دور فسوں کار میں اور کیا چاہتے ہو’
آج کا زمانہ مذکورہ شہر کا حقیقی منظر پیش کرتا ہے دُنیا بھر میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت مسجد موجود ہے مگرمسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے کی کیفیت ہے۔ مگر فلسطین کے علاقےغزہ کی پٹی کی مساجد دنیا بھر کی مساجد میں آبادی کے اعتبار سے منفرد ہیں۔ شب بیدار اہالیان غزہ کی مسجدیں نماز فجر میں بھی اتنی ہی آباد ہیں جتنی کہ جمعہ کے وقت آباد ہوتی ہیں۔ جتنی نمازی جمعہ کے اجتماعات میں ہوتے ہیں فجر کی نمازوں میں بھی اتنی ہی تعداد موجود ہوتی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار نے غزہ کی پٹی میں مساجد میں نماز فجر میں نمازیوں کی حاضری پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ ایسے لگتا ہے کہ غزہ کی مساجد میں نمازیوں کی تعداد کے حوالے سے مقابلے کی کیفیت ہے۔
اپنی اصلاح کا بہترین موقع
غزہ کا علاقہ اور وہاں کی آبادی صہیونی ریاست کے جبرو تشدد کی بدترین زندہ مثال ہے۔ گیارہ سال سے اسرائیلی ریاست نے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ تمام تر ستم، محرومیوں اور ناکہ بندی کے باجود اہالیان غزہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں بلکہ اچھے دنوں اور آزادی کے لیے پر امید ہیں۔
غزہ میں جامع مسجد عبداللہ عزام کے امام محمد ابوسعدہ نے کہا کہ غزہ کی مساجد میں نماز فجر اور جمعہ کے اجتماعات میں برابری کا سوشل میڈیا پر بھی چرچا ہے۔
ابو سعدہ کا کہنا تھا کہ یہ حیرت انگیز خوشی ہے کہ غزہ کے عوام کی اتنی بڑی تعداد نماز فجر میں شریک ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر شروع ہونے والی مہم کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے ہیں۔ جب سے سوشل میڈیا پر مہم شروع ہوئی ہے اس کے بعد مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ مہم سے قبل غزہ میں بعض مساجد کی تین سے چار صفوں تک 200 سے 250 نمازی ہوتے تھے جب کہ ان نمازیوں کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی ہے۔ ابو سعدہ نے بتایا کہ مسجد عبداللہ عزام میں 12 صفیں نمازفجر میں نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ مہم جاری رہی بہت غزہ کی تمام مساجد میں نماز فجر کی حاضری نماز جمعہ کے اجتماعات کے برابر ہوسکتی ہے۔
مہمات بھی ایک وسیلہ
غزہ میں نمازیوں کی تعداد بڑھانے کے لیے جاری مہم کے ایک منتظم جہاد مصبح نے بتایا کہ انہوں نے نمازیوں کی تعداد بڑھانے کے لیے سوشل میڈیا پر مہمات کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے ٹیمیں بھی تشکیل دی گئی ہیں۔
مقامی عالم دین ابو سعدہ کا کہنا ہے کہ ان کی مسجد کی کمیٹی نے مختلف دعوتی پروگرامات شسروع کیے تاکہ نماز فجر میں نمازیوں کی حاضری کو زیادہ سے زبادہ کیا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسجد کی طرف سے تشکیل دی گئی کمیٹیاں مقامی وقت کے مطابق صبح چار کے بعد محلوں میں نکل جاتی ہیں۔ مساجد سے تھوڑا دور رہنے والے شہریوں کو موٹر سائیکلوں پر مساجد میں لانے کی بھی سہولت دی جاتی ہے۔
مہم کے اہداف
فلسطینی عالم دین ابو سعدہ کا کہنا ہے کہ نمازیوں کی تعداد بڑھانے کے لیے جاری مہم کا مقصد مسلمانوں میں نماز فجر کی با جماعت مسجد میں ادائیگی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔ ہم فلسطینی قوم میں یہ شعور اجاگر کررہے ہیں کہ وہ صبح کو جلد بیدار ہونے اور نماز کے پابند ہوجائیں تو فتح ونصرت ان کے قدم چومے گی۔
غزہ کی پٹی کا علاقہ تین بڑی جنگوں کا سامنا کر چکا ہے۔ سنہ 2014ء کو اسرائیل نے اکاون روز تک غزہ پر وحشیانہ جنگ مسلط کیے رکھی۔ صہیونی ریاست فلسطینی مجاھدین کے خلاف اپنے عزائم میں بری طرح ناکام رہی۔ مجاھدین نے دشمن کے عزائم خاک میں ملا کر دشمن کے طاقت کے توازن کی کمر توڑ دی۔
ابو سعدہ نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں نمازیوں کی تعداد بڑھانا سلطان صلاح الدین ایوبی کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے بھی مسجد اقصیٰ کو صلیبیوں کے پنجوں سے آزاد کرانے کے دوران اپنی فوج کو باقاعدگی کے ساتھ نماز فجر کی ادائیگی کی تلقین کرتے تھے۔
فلسطینی نوجوان مصبح نے نماز فجر میں غزہ کی مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں اضافے پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ ان کی جانب سے شروع کی گئی مہم کا عوام میں بہت مثبت رد عمل سامنے آیا ہے۔