فلسطین کےدریائے اردن کے مغربی کنارے کے تاریخی شہروں میں ایک بڑا نام ’نابلس‘ کا ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے یہ شہر غرب اردن کے شمال میں واقع ہے۔ دیگر کئی دوسرے فلسطینی شہروں کی طرح نابلس بھی قدیم تاریخی روایات، قدرتی مناظر حسن، دلفریب تاریخی عمارات اور مختلف ادوار کے فن تعمیر کے نمونوں کا مرکزہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے اپنے قارئین کے لیے شہر نابلس کے تاریخی حسن، اس کے بازاروں، مساجد اور دیگر تاریخی عمارتوں کی ایک جھلک دکھائی ہے۔ بلا شبہ نابلس بھی فلسطین کے شاہکاروں میں سے ایک ہے۔ اگرچہ مرور زمانہ اور صہیونی ریاست کی غاصبانہ قبضے کے بعد بہت کچھ بدل گیا ہے مگر اس دور فسوں کار میں بھی نابلس کی تاریخ، قدرتی مناظر اور فن
تعمیرات کے شاہکار نمونے اپنی دلفریبی اور دلکشی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ نابلس کے پرانے شہر میں داخل ہونےوالے آج بھی وہاں کی تاریخی عمارات کو دیکھ کر ورطہ حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔
اگر آپ نابلس کے مشرق کی سمت سے شہر میں داخل ہوں تو آپ کا استقبال ایک پرانی عمارت کرے گی۔ یہ عمارت وہاں کی مسجد الکبیر کی ہے۔ یہ مسجد بازیلکا رومانیا کی بنیادوں پربنائی گئی ہے جب کہ بازیلکا رومانیا نامی عمارت دوسری صدی عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی۔ یوں یہ عمارت فلسطین کی قدیم ترین عمارات میںسے ایک ہے۔ چوتھی صدی عیسوی یعنی تعمیر کے دو سو سال بعد اسے بازنطینی دور میں گرجا گھر میں تبدیل کردیا گیا۔ فلسطین پر صلیبی قبضے کے دور میں اس عمارت کی مشرت کی سمت میں توسیع کی گئی۔ صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں فتح بیت المقدس کے بعد اسے مسجد میں تبدیل کردیا گیا۔ ان کے دور میں مسجد کا ہال، مینار اور جنوب کی سمت میں محراب بھی تعمیر کیے گئے۔
جامع مسجد الکبیر نابلس کی قدیم ہی نہیں بلکہ سب سے بڑی مسجد قرار دی جاتی ہے۔ مسجد سے جنوب کی سمت میں آگے بڑھیں تو صدیوں پرانا ایک بازار آج بھی گئے زمانون کی شان وشوکت کی گواہی دیتا ہے۔ مقامی شہری اسے ’پیاز مارکیٹ‘ کہتے ہیں۔ وہاں سے مشرق کی سمت میں القصبہ کالونی بھی شہر کی قدیم کالونیوں میں سے ایک ہے۔
جامع مسجد الکبیر دراصل ایک گرجا گھر ہوا کرتی تھی۔ سنہ 1167ء میں اسے جامع مسجد میں تبدیل کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب سلطان صلاح الدین ایوبی نابلس کو صلیبیوں کے قبضے سے آزاد کرانے کے بعد اسلامی خلافت میں شامل کیا۔
نابلس کے ایک دیرینہ شہری 93 سالہ الحاج احمد حسین کا کہنا ہے کہ وہ شہر سے باہر بالخصوص ’حارۃ الیاسمین‘ میں رہائش اختیار نہیں کرسکتے، وہ بچپن سے اسی جگہ رہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نابلس کی پرانی عمارتیں اس کے بازار اور گلی کوچے کافی حد تک شام کے دارالحکومت دمشق سے ملتے جلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ’چھوٹا دمشق‘ بھی کہا جاتا ہے۔
الحاج حسین نے مزید کہا کہ تاریخی کتابوں میں قدیم نابلس شہر کے کئی عجیب وغریب نام ملتے ہیں۔ مثلا حوش العطعوط، حسبہ دم، حارۃ القریون اوروغیرہ اور ان تمام ناموں کی ایک خاص کہانی ہے۔
ایک اور فلسطینی شہری 75 سالہ عماد حلاوہ جو پرانے نابلس میں ایک ہوٹل کے مالک ہیں کا کہنا ہے کہ انہوں نے برسوں کی زندگی یہاں گذار دی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس علاقے کی عمارتوں کی زندگی سیکڑوں سال پر مشتمل ہے۔
نابلس شہر کی چھ پرانی گلیاں ہیں جو کہ الیاسمینہ، القریون، الغرب، القیساریہ ، الجبلہ، العقبہ کے ناموں سے جانی جاتی ہیں۔