ایک طرف اسرائیلی فوج اور پولیس نہتے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کیے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیلی کنیسٹ [پارلیمنٹ] بھی فلسطینیوں کی شہری آزادیوں پر نت نئی قدغنیں عاید کرنے کی سازشیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسرائیل کے کثیرالاشاعت عبرانی اخبار ‘یسرائیل ھیوم‘ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پارلیمنٹ میں بحث کے لیے جلد ہی ایک نیا مسودہ قانون پیش کیا جا رہا ہے جس میں اندرون فلسطین[سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں] کے باشندوں پرنئی قدغنیں عاید کی جائیں گی۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی کنیسٹ میں بحث کے لیے تیار کیے جانے والے بل میں سفارش کی گئی ہے کہ اسرائیل کے زیرانتظام علاقوں میں کسی فلسطینی کو کسی مخالف تنظیم کا پرچم لہرانے کی اجازت نہ دی جائے۔ اسرائیل مخالف تنظیم کا پرچم لہرانے یا اسرائیل کی مخالفت میں کسی بھی سرگرمی میں حصہ لینے والے فلسطینی کو پابند سلاسل کیا جائے۔
یہ مسودہ قانون رکن کنیسٹ روبرٹ ایلطوف کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ایلطوف’اسرائیل بیتنا‘ نامی دائیں بازو کی مذہبی سیاسی جماعت کے پارلیمانی بلاک کے سربراہ ہیں۔
اس نئے قانونی بل میں سفارش کی گئی ہے کہ اسرائیلی ریاست کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے فلسطینی کو 2 لاکھ 26 ہزار شیکل جرمانہ یا پانچ سال قید یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جائیں۔ جرمانہ کی مذکورہ رقم امریکی کرنسی میں 64 ہزار ڈالر کے برابر ہے۔
اسرائیلی رکن پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران اندرون فلسطین میں فلسطینیوں کو ’دہشت گرد‘ تنظیموں کی حمایت میں سرگرمیوں میں ملوث دیکھا گیا۔ فلسطینی آزادی اظہار رائے کی آڑ میں اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے دعوے کرنے والے گروپوں کی حمایت کررہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دولت اسلامیہ [داعش] اور اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کی علامات اپنانا اور ان کی حمایت کرنا اسرائیل کے ساتھ کھلم کھلا دشمنی کے مترادف ہے۔ ایسے فلسطینی جو ان تنظیموں کی حمایت کرتے پائے جائیں تو ان کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔