قابض صہیونی فوج نے فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں گھر گھر تلاشی کی کارروائیوں کے دوران 7 فلسطینی شہریوں کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقامات پر منتقل کردیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق قابض صہیونی فورسز کی طرف سے جاری کردہ بیانات اور رپورٹس میں منگل کو علی الصباح سات فلسطینیوں کو حراست میں لیے جانے کی تصدیق کی گئی ہے۔ ان رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گرفتار ہونے والے شہریوں میں سیکیورٹی فورسز کو مزاحمتی حملوں میں مطلوب فلسطینی بھی شامل ہیں۔
اطلاعات کے مطابق تین فلسطینیوں کو غرب اردن کے جنوبی شہر بیت لحم کے حوسان، بیت فجار اور بیت ساحور قصبات سے حراست میں لیا جب کہ دو فلسطینیوں کی گرفتاری جنوبی شہر الخلیل کے العروب پنای گزین کیمپ سے عمل میں لائی گئی۔
عبرانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق دو فلسطینی شہریوں کو مغربی رام للہ کے نعلین قصبے سے گرفتار کیا گیا۔
ادھر اسرائیلی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے گذشتہ شام ایک کارروائی کے دوران دو مشتبہ فلسطینی حملہ آوروں کو الخلیل شہر میں مسجد ابراہیمی کے قریب سے حراست میں لیا ہے۔ یہ دونوں فلسطینی اسرائیلی فوج اور آباد کاروں پر چاقو سے حملوں کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ ان کے قبضے سے چاقو برآمد کیے گئے ہیں۔
قدس پریس نے ان دونوں نوجوانوں کی شناخت جمیل اور علی العجلونی کے ناموں سے کی ہے۔ انہیں مسجد ابراہیمی کے قریب قائم ابو الریش چوکی سے حراست میں لیا گیا۔
ادھر قابض فوج نے آج منگل کو نابلس شہر میں قائم جامعہ النجاح کے ایک پروفیسر ڈاکٹر مصطفیٰ النشار کے گھر پر چھاپہ مارا۔ یہ چھاپہ دو روز میں دوسری صہیونی کارروائی ہے۔ قابض فوج پروفیسر الشنار کے بیٹے انجینیر منتصر کوحراست میں لینا چاہتی ہے۔
عینی شاہدین نے مرکزاطلاعات فلسطین کو بتایا کہ قابض فوج نے پروفیسر مصطفیٰ الشنار کے گھر پرچھاپہ مارنے کے بعد تلاشی کی آڑ میں قیمتی سامانن کی توڑپھوڑ کی۔ قابض فوج ان کے 26 سالہ بیٹے منصر کو حراست میں لینے کے لیے بار بار ان کے گھر پر چھاپے مار رہی ہے۔ منتصر یونیورسٹی میں حماس کے قریب سمجھے جانے والے طلباء گروپ اسلامک بلاک کا اہم رکن ہے۔