اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے صہیونی ریاست کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس اور شمالی فلسطین کی مساجد میں اذان پر پابندی کی سازش کی شدید مذمت کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کی مساجد میں اذان پر پابندی آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
قطر میں ترک خبر رساں ادارے’اناطولیہ‘ سے بات کرتے ہوئے خالد مشعل نے کہا کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی دیگر مساجد میں اذان پر پابندی کے حوالے سے جو سازشیں تیار کررہا ہے وہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہیں۔ اگر فلسطینی مساجد میں اذان پر پابندی لگتی ہے تو فلسطینی قوم اس پر خاموش تماشائی نہیں رہیں گے۔ صہیونی ریاست کے اس غیرقانونی اور غیراخلاقی اقدام پر پوری مسلم امہ حرکت میں آجائے گی۔
ایک سوال کے جواب میں خالد مشعل کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت نے اس خوف سے اذان پر پابندی کے قانون کو حتمی منظوری سے بچانے کی کوشش کی کیونکہ اس قانون کی زد میں خود یہودیوں کے مذہبی شعائر بھی اسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اذان پرپابندی کے متنازع قانون کےخلاف فلسطینی قوم نے صہیونی ریاست کو واضح اور دو ٹوک پیغام دے کر بتا دیا ہے کہ اگر اس قانون کا نفاذ کیا جاتا ہے تو فلسطینی قوم خاموش نہیں رہے گی۔
حماس رہ نما کا کہنا تھا کہ خطے میں اس وقت تک دیر پا امن کا قیام ممکن نہیں جب تک فلسطینی قوم کو اس کے سلب شدہ حقوق فراہم نہیں کیے جاتے۔
امریکا میں اسرائیل نواز ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خالد مشعل نے کہا کہ یہ درست ہے کہ عالمی اور علاقائی تبدیلیوں سے فلسطین سمیت خطے کے دیر مسائل پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مگر امریکا میں صدر کی تبدیلی سے کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ فلسطینی قوم اپنی تاریخ اپنی قربانیوں سے مرتب کررہی ہے۔ ہم اپنے عزم کے ذریعے دنیا سے اپنے حقوق تسلیم کرائیں گے۔ فلسطینی قوم کی آزادی کی منزل زیادہ دور نہیں۔ غاصب صہیونی ریاست اور اس کے حواری زیادہ دیر تک فلسطینیوں کی آزادی سلب نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا ڈونلڈ ٹرمپ ہو یا کوئی اور ہرایک پر جلد یہ حقیقت منکشف ہوجائے گی کہ صہیونی ریاست کی ہٹ دھرمی مشرق وسطیٰ میں دیر پا قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ خطے میں اس وقت تک امن استحکام ممکن نہیں جب تک فلسطینیوں کو ان کے تمام جائز حقوق فراہم نہیں کیے جاتے۔