عموما اولاد کی نعمت سے محروم لوگ حالات سے مایوس ہوکر دین ودنیا سے بے زار ہو جاتے ہیں مگر فلسطین کی ایک عمر رسیدہ خاتون نے اولاد کی محرومی کو مایوسی کے بجائے اللہ سے تعلق جوڑنے کتاب اللہ سے رشتہ مضبوط بنانے کا ذریعہ بنا لیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے 85 سالہ نعیمہ وھبی سلطان کےحالات زندگی اور ان کے تعلق بالقرآن پرروشنی ڈالی ہے۔ نعیمہ سلطان کا کتاب اللہ کے ساتھ تعلق اہل ایمان کی روح ایمان کو ترو تازہ کرتا اور قرآن سے محبت کے جذبات کو مہمیز دیتا ہے۔
عمررسیدگی کے باوجود نعیمہ نہ صرف نماز پنجگانہ کی پابند ہیں بلکہ وہ الخلیل شہر کی جبل الرحمہ کالونی کی مسجد الریان میں باقاعدگی کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرتی ہیں۔ ان کے گھر اور مسجد کے درمیان جگہ جگہ صہیونی فوجیوں کی چیک پوسٹیں بھی حائل ہیں مگر انہوں نے صہیونیوں کی طرف سےلاحق خطرات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مسجد اور قرآن سے اپنا تعلق مضبوط بنا رکھا ہے۔
نعیمہ سلطان کے گھر اور مسجد کے درمیان h1 اور h2 نامی سیکیورٹی پوائنٹس واقع ہیں، جہاں سے فلسطینیوں کو آئے روز گذرنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خود نعیمہ بھی ان چیک پوسٹوں سے گذرتے ہوئے کافی پریشانی کا سامنا کرتی ہے۔ وہ باقاعدگی کے ساتھ مسجد ریان میں جاتی ہیں، جہاں نہ صرف تحفیظ القرآن کے حلقات میں شامل ہوتی ہیں بلکہ نا خواندہ ہونے کے باوجود دروس قرآن کریم میں بھی شرکت کرتی ہیں۔ یوں نعیمہ سلطان کا بیشتر وقت مسجد میں تلاوت کلام پاک اور حلقہ ہائے دروس قرآن کریم میں شرکت کی حالت میں گذرتا ہے۔
قرآن پاک کے ساتھ سفر
نعیمہ سلطان سنہ 1931ء کو غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل [خلیل الرحمان] میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے شادی کی مگر قدرت نے ان کی مقدر میں اولاد نہیں لکھی تھی۔ اس طرح انہوں نے بے اولادی میں زندگی گذار دی۔ ان کا کہنا ہے کہ اولاد کی محرومی سے میں مایوس نہیں ہوئی بلکہ اللہ اور قرآن کریم سے لو لگا لی۔ مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے نعیمہ نے بتایا کہ میں جوانی کی عمرمیں بھی مسجد میں باقاعدگی سے آتی تھی۔ میں مسجد میں خواتین کے حلقہ حفظ قرآن میں شرکت کرتی تو مجھے کم عمر بچوں اور بچیوں کو قرآن کریم حفظ کرتے دیکھ کربہت خوشی ہوتی۔ اس طرح میں نے سوچا کہ مسجد میں تو میں باقاعدگی سے آتی ہوں کیوں نا ان بچیوں کے ساتھ میں بھی قرآن کریم حفظ کرنا شروع کردوں۔ اس طرح میں نے زبانی یاد کرنے کا مرحلہ شروع کردیا۔
نعیمہ نے بتایا کہ میرے شوہر بیمار پڑے تو مجھے ان کی دیکھ بحال کرنا پڑتی مگر اس کے باوجود میں نے گھر میں ریڈیو پراور مسجد میں حلقات قرآنیہ میں قرآن کی سماعت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کا کہنا ہے مجھے اللہ نے اولاد نہیں دی مگر قرآن کی نعمت سے سرفراز فرما دیا۔ اگر اولاد ہوتی تو میں اولاد کی دیکھ بحال اور پرورش میں مشغول رہتی اور قرآن کریم کی نعمت سے محروم رہتی۔ اس طرح میں نے قرآن کریم سن کر حفظ کرنا شروع کردیا۔
فلسطینی بوڑھی خاتون کا کہنا ہے کہ شروع شروع میں قرآن کریم کے کچھ اجزاء بے ترتیبی کے ساتھ یاد کیے تھے مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ شوق تحفیظ قرآن بڑھتا چلا گیا اور میں نے باقاعدہ کے ساتھ قرآن کریم حفظ کرنا شروع کردیا اور آخر کار ایک روز میں قرآن کریم کی حافظہ بن گئی۔
نعیمہ سلطان کی عمر رسیدگی کے باوجود ان کے شوق تلاوت کلام پاک کے نتیجے میں ان کے چہرے پرہمہ وقت مسکراہٹ ، تازگی اور ایمان کی روحانی رونق دکھائی دیتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں باقاعدہ حفظ کی کلاس میں شریک نہیں ہوتی تھی۔ میں ایک پارہ قرآن پاک یاد کرتی اور اس کے بعد مسجد کی قاریہ کو سنا دیتی تھی۔
ماؤں کو نعیمہ کی وصیت
نعیمہ سلطان کا کہنا ہے کہ قرآن کریم حفظ کرنا بہت بڑی سعادت اور خوش بختی ہے۔ ماؤں کو چاہیے کہ وہ خود بھی کچھ وقت نکال کرقرآن پاک کو یاد کرتی رہا کریں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو ضرور قرآن کریم حفظ کرائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو بڑی بڑی شہرہ آفاق جامعات میں جدید تعلیم کے لیے داخل کراتے ہیں مگر قرآن پاک جیسی عظیم نعمت سے بچے محروم رہتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم سر بسر نعمت خدا وندی اور دنیو وی اخروی کامیابی کا ذریعہ ہے۔
اس عمر رسیدگی میں قرآن کریم یاد رکھنا بھی کم مشکل نہیں مگر نعیمہ کہتی ہیں کہ وہ روزانہ قرآن پاک کی منزل دہراتی ہیں۔ اس طرح انہیں قرآن کریم مکمل اور بہترین یاد رہتا ہے۔