جمعه 15/نوامبر/2024

کیا یہی انصاف ہے؟

جمعہ 26-مارچ-2010

ہر طرف خون ہی خون ہے، لہو کی ندیاں بہنے کو ہیں، ظلم و ستم آسمان سے باتیں کر رہا ہے، آسماں پھٹنے کے حکم کا منتظر ہے، زمین نگلنے کے لیے پکار رہی ہے کہ مسلمان اپنی بہنوں کو اس طرح درندوں کے حوالے کر دینگے! حقوق نسواں پر شور و غل مچانے والے اندھے ہو جائیں گے اور زبانیں سل جائیں گی۔

خطۂ ارض کی یہ جنگ دو ملک یا دو قوتوں کی نہیں بلکہ یہ اسلام اور کفر کی جنگ ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔

اور مسلمان ”نادان” مظلوم ہونے کے باوجود صفائیاں پیش کر رہے ہیں۔ ظالم من مانی سے انصاف کو بدنام کر رہا ہے۔ پاکستان ہو یا افغانستان، عراق ہو یا فلسطین، مسلمانوں کو مٹایا جا رہا ہے۔ دنیا کے کافر ”الکفرملة واحد” کا ثبوت پیش کررہے ہیں۔

افغانستان، پاکستان اور عراق کو چھوڑ کر فلسطین پر نظر دوڑائیں تو چھوٹے چھوٹے معصوم بچے حسرت بھری نگاہوں سے ہمیں دیکھتے ہوئے اپنی جانیں پیش کرتے ہیں… اور انصاف کے دن کے منتظر ہیں۔

مسلمانوں کی جماعت پر الزام کی وجہ سے اقوام متحدہ کی طرف سے پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل، 1972ء سے 2010ء تک کئی مرتبہ بھاری اکثریت سے اس کے خلاف قراردادیں پیش کی گئیں تو درخواست کی مخالفت کرنے والا دنیا کا ظالم؟؟؟ سرفہرست رہا۔

1972ء میں شام اور لبنان نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف سلامتی کونسل میں شکایت دائر کی۔ 15 میں سے 13 نے ان کی حمایت کی صرف ایک نے اسرائیل کے حق میں ووٹ ڈالا۔

2 اکتوبر 1973ء میں درخواست کو مسترد کر دیا۔ 1973ء میں مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر 8 ممالک نے اسرائیل کے خلاف قرارداد پیش کی۔ امریکا نے 7 فروری 1973ء میں اس کو بھی مسترد کر دیا۔ 1975ء اور 1976ء میں 6 بڑی قوموں نے فلسطینی ظلم پر اپیل دائر کی۔ 9 ممالک نے پابندی اور 3 نے اسرائیل کی موافقت کی امریکا نے اس درخواست کو بھی رد کر دیا۔ اپریل 1980ء میں تیونس نے فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے درخواست دی۔ 30 اپریل کو مسترد کر دی گئی۔ اردن نے مقبوضہ علاقوں کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر 1982ء میں اسرائیل کے خلاف قرارداد پیش کی۔ 13 ارکان نے اردن کی حمایت اور ایک نام نہاد نے مخالفت کی۔ 12 اپریل کو رد کر دیا گیا۔

محترم قارئین! آپ انصاف اور امن کے مینار کی بدنما تاریخ پڑھتے جائیں اور سوچتے جائیں۔ 1982ء میں مسجد اقصیٰ پر حملہ کر کے مسلمانوں کو قبلہ اول یاد دلایا، قرارداد پیش کی گئیں کوئی بھی مخالف نہ تھا لیکن 20 اپریل 1982ء کو امریکا نے اسے بھی ردی بنادیا۔ جون 1982ء، اگست 1982ء میں قرارداد اکثریت سے قبول ہوئیں۔ امریکا نے اس کو بھی مسترد کردیا۔ اسی طرح بالترتیب 1983ء، 6 ستمبر 1984ء، 13 ستمبر 1985ء، 12 مارچ 1985ء، 30 جنوری 1986ء، 6 فروری 1986ء، 18 جنوری 1988ء، 10 مئی 1988ء، 14 دسمبر 1988ء، 17 فروری 1989ء، 31 مئی 1990ء، 17 مئی 1995ء، 7مارچ1997ء، 21 مارچ 1997ء، 27 مارچ 2001ء، 15 دسمبر 2001ء، 20 دسمبر 2002ء، 16 ستمبر 2003ء، 14 اکتوبر 2003ء کو دی گئی تمام درخواستوں کو ردی کی زینت بنادیا۔ مارچ 2004ء میں شیخ احمد یٰسین کو شہید کردیا گیا۔ سلامتی کونسل نے اس کو کھلی جارحیت اور ظلم قرار دیا مگر امریکا نے اسرائیل کی حمایت کی۔

11 نومبر 2006ء میں غزہ پر حملے روکنے کے لیے سلامتی کونسل میں قرارداد منظور ہوئی۔ امریکا نے اپنا حق ادا کیا۔ 6 نومبر 2009ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عرب ممالک نے اسرائیل کے خلاف قرارداد پیش کی۔ قرارداد کے حق میں پاکستان سمیت 114 ممالک نے بھر پور حمایت کی۔ جبکہ مخالفت میں 18 ووٹ ڈالے گئے مخالفوں میں حسب روایت و عادت امریکا پہلے نمبر پر تھا۔

ان میں بعض قراردادیں تو وہ ہیں جنہیں خود امریکا نے مسترد کیا۔ تیس پنتیس ایسے مواقع بھی ہیں کہ اسرائیل نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی۔

ارکان نے کارروائی کا فیصلہ دیا تو امریکا نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیل کی بھرپور حمایت کی۔ امریکا کی یہ سینہ زوری یہی تک محدود نہیں بلکہ جو بات بھی اس کی پالیسی کے خلاف تھی اسے رد کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ کیا اسی چیز کا نام انصاف ہے؟ ایک طرف عراق کو روند ڈالا، افغانستان کے امن کو تباہ و برباد کردیا، اسلام کو پوری دنیا کے سامنے دہشت گردی کے القاب دیے، مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کی بے حرمتی کی اور مسلمانوں کی عزتوں کو دنیا بھر میں نیلام کیا۔

مسلمانوں کے خلاف اس یکطرفہ مہم کا انجام استعمار کی شکست کی صورت میں نکلے گا۔ کیونکہ ظلم جب حد سے گزرتا ہے تو انقلاب کو جنم دیتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ اسلام

لینک کوتاه:

کپی شد