فلسطین کا مسلم اکثریتی اور کرہ ارض کا گنجان آباد شہر غزہ جو اپنے رقبے کے اعتبار سے بہت چھوٹا ہے ، لیکن مسائل کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے- اس کے باسیوں کی کسمپرسی کی داستان گزشتہ ساٹھ برسوں پر محیط ہے- مرو ر وقت کے ساتھ ساتھ اہل غزہ کے دن تاریک سے تاریک تر ہوتے جار ہے ہیں- فلسطینیوں کو یہ سزا ان کی جد جہد آزادی اور اسرائیل کی مخالفت کی وجہ سے دی جارہی ہے-
گو کہ غزہ کی پٹی کی براہ راست عمل داری اسرائیل کے کنٹرول میں نہیں تاہم اس کے بیرونی راستوں پر اسی کا پیرا ہے-شہر میں سامان خوردو نوش کی آمد و ترسیل کے تمام راستے بھی اسرائیلی قبضے میں ہیں-اسرائیل نے اسے ایک دشمن ریاست قرار دے رکھا ہے اور2006 میں بننے والی اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) کی حکومت کی وجہ سے اب غزہ کا بچہ بچہ اسرائیل کے لیے نا قابل برداشت ہو گیا ہے- اسرائیل فلسطینیوں کو ان کی جمہوریت پسندی کی یہ سزا دے رہا ہے کہ گزشتہ ایک سال سے شہر کی معاشی ناکہ بندی کر کے شہر کا ناطقہ بند کردیا گیا ہے-گزشتہ آٹھ ماہ سے مسلط اس معاشی ناکہ بندی سے بے پناہ جانی اور مالی ضیاع ہو چکا ہے- اب تک کے اعدادو شمار کے مطابق ڈیڑھ سو افراد خواتین ، بچے اور عمر رسید ہ لوگ علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کے باعث زندگی کی جنگ ہار بیٹھے ہیں- آئے روز کی بمباری سے ہونے والی اموات سے ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے، لیکن ان تمام تر مشکلات و مصائب کے باوجود یہ لوگ اسرائیل کو ایک لمحے کے لیے بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں-
غزہ کی اس دگروں صورت حال میں اسرائیل کے علاوہ فلسطینی صدر محمود عبا س اور ان کی جماعت الفتح کی برابر کی شریک ہے-یہ امر اپنی جگہ باعث حیرت ہے کہ صدر عباس گزشتہ چھ ماہ کے دوران اسرائیل سے مذکرات کے تیس دور کر چکے ہیں-مذاکرات کے ایجنڈے میں کیا ہوتا ہے اور اولمرٹ اور محمود عباس بند کمرے میں آپس میں کیا سخن سازیاں کرتے ہیں، لیکن جب ان کی جانب سے کوئی مشترکہ بیان جاری ہوتا ہے تو اس میں فقط یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ امن بات چیت آگے بڑھ رہی ہے اور فریقین شدت پسندوں کے خلاف ملکر جد و جہد کرنے پرمتفق ہیں- بد قسمتی یہ رہی ہے کہ ان تمام ادوار میں فلسطینی صدر ایک دفعہ بھی اسرائیل پر غزہ کی ڈیڑھ ملین آبادی کے حالات پر بات نہ کر سکے- خو دسر اسرائیل کے سامنے برابری کی سطح پر بات چیت تو درکنارصدر عباس تل ابیب سے اپنا کوئی چھوٹا سا مطالبہ بھی پورا نہیں کر اسکے-
صدر عباس کی نااہلی اور اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں کے باعث غزہ شہر کی کیفیت زندہ لوگوں کے قبرستان جیسی ہو چکی ہے-ایندھن کی قلت تمام مسائل میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے- اسرائیلی غزہ کو دشمن ریاست قرار دے کر ایندھن کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے- فلسطینی محکمہ صحت کے ڈائریکٹرعبدالکریم عابدین نے شہر کی دگرگوں حالت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شہر کے گیارہ بڑے اور بیس چھوٹے ہسپتالوں میں مریض سسک سسک کر جان دے رہے ہیں، ہسپتالوں میں ادویات کی قلت کے ساتھ ساتھ مریضوں کی کثرت میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ بجلی کی بندش کے باعث علاج ناممکن ہو گیا ہے- بجلی نہ ہونے کے باعث ایک طرف شہر تاریکی میں ڈوبا ہو ا ہے اور دوسری طرف ٹرانسپورٹ کا نظام اس سے زیادہ بری کیفیت سے دو چار ہے-عام شہری تو کجا انسانی حقوق کے اداروں کو اپنی ایمبو لینس سروسز جاری رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے- بجلی اور خاتم تیل کی قلت کے بعد گیس کا بحران بھی پھن پھیلا رہا ہے-
شہر میں بڑے بڑے ہوٹل اور نان شاپس تک بند ہو چکی ہیں- ایک عرب خبر رساں ادارے قدس پریس سے اپنی غربت کی داستان بیان کرتے ہوئے شہری پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے-شہریوں نے اسرائیلی جارحیت میں تل ابیب اور رام اللہ دونوں کو برابر کا ذمہ دار قراردیا-
غزہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر فلسطینی شہری ہی سراپا احتجاج نہیں بلکہ عامی ادارے بھی چیخ چیخ کر اسرائیلی مظالم کی داستان کہہ رہے ہیں، لیکن مجال ہے کہ عالمی برادری کے کان تک جون تک رینگے- حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارے نے عالمی برادری کے عدم تعاون اور اسرائیل کے مسلسل حملوں کے باعث غزہ میں احتجاجا اپنا کام بند کرنے کا فیصلہ کیا- جہاں اقوا م متحدہ جیسا ادارہ بے بس ہو کر رہ گیا ہو وہاں سطح زندگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے- عالمی ادارے کے مندوب برائے فلسطینی پناہ گزین جان جینگ نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی جانوں سے کھیل رہا ہے-
صدر محمود عباس کی جماعت الفتح اسرائیلی جارحیت میں اس کے بازو کی حیثیت رکھتی ہے- غرب اردن میں حماس اور دیگر آزادی پسند شہریوں کا جینا دو بھر کر دیاگیا ہے- صدر محمود عباس کے زیر کمانڈ سکیورٹی فورسز نے حماس کے پانچ سو سے زائدارکان کو گرفتار کر رکھا ہے- اس کے علاوہ حماس سے ہمدردی رکھنے والوں کو پکڑ پکڑ کر اسرائیل کے حوالے کیا جارہا ہے – ایسے میں فلسطینی شہریوں کا فتح کے خلاف بھی غم وغصہ بڑھنا فطری ہے – فلسطینی شہریوں کی فتح سے نفرت کا ایک سبب اس کا حماس سے مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرنا بھی شامل ہے- حماس نے داخلی امور کے حل کے لیے با رہا فتح قیادت کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن اس نے مستر دکردیا-
اسرائیلی جارحیت اور غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے مجاہدین نے حال ہی میں مصری توسط سے اسرائیل کو جنگ بندی کی پیش کش بھی کی ہے، لیکن ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو مزاحمت کاروں اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی-حماس، جہاد اسلامی اور پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ کی جانب سے اسرائیل سے جنگ بندی کی پیش کش میں کہا ہے کہ وہ برابری کی بنیاد پر اسرائیل سے بات چیت کرنے پر تیا رہیں- فلسطین کی جانب سے جنگ بندی کا مسودہ لے کر مصری انٹیلی جنس چیف عمر سلیمان تل ابیب پہنچ چکے ہیں ،لیکن اسرائیلی حکام کا رویہ انتہائی نا پسندیدہ دکھائی دے رہا ہے –
اسرائیلی وزیر دفاع نے سلیمان سے ملاقا ت میں جنگ بندی کو حماس کے ہاں جنگی قیدی جلعاد شالط کی رہائی سے مشروط قرار دیا -مجاہدین سے جنگ بندی سے متعلق جب وزیر مواصلات شاؤل موفاذ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ اسرائیل کے لیے حماس اور جہاد اسلامی جیسی جماعتوں سے سیز فائر کرنا ایک نادر فیصلہ ہو سکتا ہے-
کیونکہ اسرائیل نے کبھی بھی اپنی دشمن طاقتوں سے بات چیت کرنے کوشش نہیں کی- انہوں نے کہا کہ حماس سے جنگ بندی کا مقصد اسے اسرائیلی تنصیبات پر حملوں کی تیاری کا موقع فراہم کرنا ہو گا، لہذا حکومت کو ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرنا چاہیے جس سے مجاہدین سے مصالحت ہو اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کی تباہی- مجاہدین کی جانب سے پیشکش اس لیے بھی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ اسرائیل میں سکیورٹی سے متعلق ادارے حکومت کو اس حوالے سے سخت تنبیہ کر چکے ہیں- اسرائیلی آرمی چیف گابی اشکنازی نے نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ حماس سے جنگ بندی کافیصلہ اولمرٹ کا ذاتی فیصلہ ہو گا، فوجی کارروائیوں پر اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا- انہوں نے بھی مجاہدین کی جنگ بندی پیش کش کو اسرائیل کے خلاف ایک چال قرار دے کر مسترد کردیا-حماس اور دیگر جماعتوں کی جانب سے جنگ بندی کی پیش کش کا مقصد دراصل غزہ کے حالات کو معمول پر لانا ہے- حالات کو سدھارنے کی یہ کوشش بھی ناکام رہی تو اہل غزہ کسی بڑے المیے سے دوچار ہو سکتے ہیں-
اسرائیل نہ صرف حماس کی جنگ بندی پیش کش میں سنجیدہ نہیں بلکہ وہ غزہ پر فیصلہ کن حملے کی تیاری میں مصروف ہے- ایک عرب سفارت کا رنے حال میں اسرائیلی اخبار ’’یروشلم پوسٹ‘‘ کو اپنا نا م ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیل امریکی فوج کے تعاون سے غزہ پر حملے کا ارادہ رکھتاہے ، اس لیے اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو تا- انہوں نے کہا کہ طویل عرصے سے اسرائیل اور امریکہ کے درمیان حماس کے خلاف کارروائی پر بات چیت چل رہی تھی جو اب حتمی شکل اختیا ر کر رہی ہے-غزہ پر حملے کے لیے امریکی فوج مشرق وسطی کے مختلف اڈوں کو استعمال کر کے حماس حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں-
غزہ کی موجودہ صورت حال پر جہاں اسرائیل حملے کے لیے پر تول رہا ہے وہاں عرب لیگ اوراسلامی کانفرنس جیس تنظیمیں خاموش تماشائی ہیں – حال ہی میں حماس کے راہنما خالد مشعل نے اپنے ایک بیان میں عالمی برادری خصوصا عرب لیگ اور او آئی سی کے منفی کردار پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے اسرائیل کی حامی پالیسی قرار دیا ہے-عرب ممالک میں سعودی عرب ،قطراورلجزائرکے سواعرب دنیاکاکوئی ملک غزہ کی صورتحال کوسنجیدگی سے نہیں لے رہا، جس سے عوامی بے چینی میں مزید اضافہ ہوتا جار ہاہے –
لبنان نظرے اورعقیدے کی جنگ مزید کتنی جانوں کا خراج لے گی؟
بدقسمت ملک لبنان کو فرقہ ورانہ کشیدگی ورثے میں ملی ہے- عیسائی مسلمان، شیعہ سنی او ر دیگر دھڑوں کی باہمی جنگ نے اس سر زمین کو ہر دور میں لہو رنگ کیا -تازہ کشیدگی کی لہرمئی کے دوسرے ہفتے میں اس وقت شروع ہوئی، جب فواد سنیورہ کی سنی حکومت اور حزب اللہ کی شیعہ اپوزیشن کے درمیان باقاعدہ جنگ کی کیفیت پیدا ہو ئی – فواد سنیورہ اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی نئی نہیں-2005 ء میں وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد اب تک حکومت اور اپوزیشن میں خوشگوار تعلقات قائم نہیں ہو سکے- حکومت رفیق حریری کے قتل کی ذمہ داری بھی حزب مخالف جماعت حزب اللہ پر عائد کر تی آئی ہے-ابتداء میں حزب اللہ حکومت میں شامل تھی تاہم کشیدگی بڑھنے کے باعث اس نے اپنے چودہ اراکین کو حکومت سے ا لگ کردیا-اس کے بعد اب تک اپوزیشن بنچوں پر جلوہ افروز ہے-
موجودہ خانہ جنگی کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے حزب اللہ کے ارکان کی گرفتاریاں بتایا جاتا ہے- حزب اللہ کا کہنا ہے کہ حکومت اسرائیل اور امریکہ کے دباؤ میں آکرحزب اللہ کا نیٹ ورک تباہ کرنا چاہتی ہے- چنانچہ اسے اپنے وجودکی بقاء کے لیے حکومت سے پنجہ آزمائی کرنا پڑ رہی ہے-حکومت کا موقف یہ ہے کہ حزب اللہ حکومت کا تختہ الٹنے کی سازشیں کر رہی ہے اس کے علاوہ اس کی پالیسیوں کی وجہ سے لبنان پر اسرائیلی حملوں کا خطرہ بھی سر پر منڈلا رہا ہے -لہذا اس کے خلاف کارروائی ضروری ہو گئی تھی-
حالیہ کشیدگی کا آغاز جس طوفانی انداز میں ہوا تھا ، ماہرین اسے ا نتہائی خطرناک صورت حال سے تعبیر کر رہے تھے او رایسے لگ رہا تھا کہ یہ کشیدگی اب اپنے ساتھ نہ جانے کتنی جانوں کا خون لے جائے گی- گوکہ ایک سو افراد اب بھی اس میں کام آ چکے ہیں، پانچ سو زخمی اور دس ہزار سے زائد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں-حزب اللہ کی جانب سے شہروں کا کنٹرول حکومت کو سپرد کرنے کے باوجود جھڑپوں کا سلسلہ رک نہیں پایا- آغاز میں حز ب اللہ جس سرعت سے دارلحکومت بیروت سمیت دیگر شہروں پر چھاتی چلی جارہی تھی،ایسے لگ رہاتھا کہ اب فواد سنیورہ کی حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں، لیکن اچانک ہی حزب اللہ نے کشیدگی میں نہ صرف کمی کردی بلکہ بیروت سمیت دیگر شہروں کا کنٹرول بھی حکومت کے سپرد کر دیا-حزب اللہ کی اچانک پسپائی اس کی حکمت عملی سمجھی جار ہی ہے- بعض ذرائع اسے ایران اور شام کی مشاورت کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں- حزب اللہ نے اس کشیدگی میں ہونے والے جانی ضیاع کی ذمہ داری حکومت کے علاوہ امریکہ او ر اسرائیل پر بھی عائد کی ہے- حزب للہ کاکہنا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ادارہ موساد ہمیشہ لبنان میں خانہ جنگی کو فروغ دینے کی سازشیں کرتا رہا ہے-
دوسری جانب امریکہ اور اسرائیل بظاہر لبنان میں کسی قسم کی خانہ جنگی میں مداخلت کی تردید کرتے آئے ہیں- امریکہ اور اسرائیل کا مشترکہ موقف یہ ہے کہ حالیہ کشیدگی کے پس پردہ شام اور ایران کا ہاتھ ہے- امریکی محکمہ دفاع پینٹا گان کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہاگیا کہ ایران اور شام خطے کی شدت پسند تنظیموں حزب اللہ اور اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کی مالی مدد کر کے انہیں اسرائیل پر حملوں کے لیے تیار کر رہے ہیں- اس میں دو رائے نہیں کہ لبنان کے داخلی معاملات میں بیرونی ہاتھ کار فر ما ہیں- کیونکہ گزشتہ سات ماہ سے لبنانی صدر کے چناؤ کا مسئلہ معمہ بن ہوا ہے- بار ہا کوششوں کے باوجودحکومت صدارتی انتخاب کے انعقاد میں کامیاب نہیں ہو سکی-
حالیہ خانہ جنگی سے ایک اشارہ فواد سنیورہ حکومت کو بھی مل گیا ہے کہ حزب اللہ جس کے خلاف وہ فوجی آپریشن کرنا چاہتی ہے اتنی کمزور نہیں، جوجماعت صرف تین دن کے اند ر اندر دارالحکومت ، اہم شاہراؤں اور ائیر پورٹس تک قبضہ میں لے لے، اسے کمزور نہیں سمجھا جا سکتا ہے- ا س سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ عوام کی اکثریت حزب اللہ کے ساتھ ہے – اس کا اندازہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کے مظاہروں میں ہونے والی عوامی حاضری ہے، کیونکہ حزب اللہ کے مظاہروں میں لاکھوں کی تعداد میں بلا شیعہ سنی اور عیسائی امتیاز شریک ہوتے ر ہے ہیں- لبنانی عوام کی جانب سے حزب اللہ کی اٹوٹ حمایت اسرائیل کے لیے مقام فکر ہے-کیونکہ اسرائیل حزب اللہ پر حملوں کی آڑ میں لبنان میں دوبارہ اپنی فوجیں داخل کرانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے-
ماضی پرنظرڈالیں توہمیں لبنان ہردورمیں خانہ جنگی کی لپیٹ میں نظر آتا ہے-1943ء میں آزادی کے بعد لبنان کئی بار خانہ جنگی اور فرقہ واریت کی بھینٹ چکا ہے- اقوام متحدہ کی جانب سے جارہ کردہ اعدادو شمار کے مطابق اب تک سوالا کھ لوگ فرقہ واریت کی بینٹ چڑ چکے ہیں- لبنان میں فرقہ واریت کا خونی طوفان اب بھی تھمنے میں نہیں آرہا – ’’نظریے ‘‘اور’’ عقیدے‘‘ کی بناپر پھیلنے والا یہ طوفان اب تک صدر بشیر جمائل، ا مام موسی صدر، کمال جنبلاط، رشید کرامے، مفتی اعظم لبنان مفتی خالد حسن، رفیق حریری ، بیار امین جمیل اور انطوان غانم جیسی نامور شخصیات کو نگل چکا ہے-1975ء سے 1990 تک لبنان سول وار اور بد ترین فرقہ واریت کے طوفانوں سے گزر چکا ہے-
حالیہ کشیدگی کا آغاز19 ستمبر2005ء سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل سے ہوتا ہے – لبنان کی جانب سے مغرب نواز حریری کے قتل میں شام کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، جبکہ شام مسلسل ا س الزام کی تردید کرتا آیا ہے-رفیق حریری کے حامی اقوام متحدہ سے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد ٹریبونل کے قیام کا مطالبہ کرتے آئے ہیں- لبنانی پارلیمان کی منظوری کے بغیر کسی دوسرے ادارے کوغیر جانب دار ٹریبونل بنانے کی اجازت نہیں- تاہم 20ستمبر2007ء کو لبنانی حکومت نے رفیق حریری کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد ٹریبونل بنانے کی منظوری دے دی ہے-
حالیہ کشید گی کے دوسرے باب کا آغاز نومبر2006ء میں اس وقت ہوا جب حزب اللہ، ایمل اور ایک عیسائی جماعت ’’فری پیٹریاٹ موومنٹ‘‘ نے کابینہ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کیے-سال 2006ء میں حکومت لبنان نے سابق وزیر اعظم رفیق حریر ی کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد ٹریبونل قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو حزب اللہ نے اس کی مخالفت کی اور3 نومبر2006 کو کابینہ سے الگ ہو گئی-حکومت نے یہ فیصلہ موخر کردیا-
21نومبر 2006ء کو لبنان کے اہم سیاسی راہنما بیار امین جمیل کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کے ہلاک کردیا – اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قتل کی مذمت کرتے ہوئے مقتول کو محب وطن اور لبنان کی سلامتی، سیاسی خودمختاری اور آزادی کی علامت قرا ردیا-
یکم دسمبر2006ء کو حزب اللہ، ایمل اور ایک عیسائی پارٹی ’’فری پیٹریاٹ موومنٹ‘‘ نے لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر نکال کر حکومت کے خلاف احتجاج کیا- ان مظاہروں میں شام حزب اللہ کی حمایت کررہا تھا جبکہ سنیورہ کو سعودی عرب کے علاوہ امریکہ، فرانس، اور یورپی یونین کی حمایت حاصل تھی، علاوہ ازیں پارلیمان کی اکثریت بھی اپوزیشن کے مطالبات کی مخالف تھی-
اپوزیشن نے استعفے دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ لبنانی حکومت عوام کی صحیح نمائندگی نہیں کرتی نیز شیعہ اتحاد جس میں حزب اللہ اور ایمل جیسی جماعتیں شامل تھیں کا مطالبہ تھا کہ انہیں پارلیمان میں ’’ویٹو پاور‘‘ کے حصول کے لیے مزیدکوٹہ فراہم کیاجائے- تاہم فواد سنیورہ نے حزب اللہ کے لبنانی آئین پر اثر انداز ہونے کے لیے دباؤ مسترد یا-
19 ستمبر 2007ء بروز بدھ رفیق حریری کی دوسری برسی کے موقع پر ہزاروں افراد بیروت کے وسط میں شہداء قبرستان میں ان کی قبر پر جمع ہوئے- اس سے ایک روز قبل بیروت میں ایک بس بم دھماکے میں تین افراد جاں بحق ہو گئے تھے- اسی طرح رفیق حریر کی برسی کے موقع پر شام مخالف راہنما انطوان غام کو ان کی کار میں ایک دھماکہ کر کے ہلاک کر دیا گیا – اس دھماکے ان میں د و ساتھیوں سمیت آٹھ افراد کی جانیں ضائع ہوئیں- غانم کی ہلاکت کے بعد سنیورہ حکومت کے اراکین کی تعداد انہتر سے کم ہو کر اڑسٹھ رہ گئی ہے-
گو کہ غزہ کی پٹی کی براہ راست عمل داری اسرائیل کے کنٹرول میں نہیں تاہم اس کے بیرونی راستوں پر اسی کا پیرا ہے-شہر میں سامان خوردو نوش کی آمد و ترسیل کے تمام راستے بھی اسرائیلی قبضے میں ہیں-اسرائیل نے اسے ایک دشمن ریاست قرار دے رکھا ہے اور2006 میں بننے والی اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) کی حکومت کی وجہ سے اب غزہ کا بچہ بچہ اسرائیل کے لیے نا قابل برداشت ہو گیا ہے- اسرائیل فلسطینیوں کو ان کی جمہوریت پسندی کی یہ سزا دے رہا ہے کہ گزشتہ ایک سال سے شہر کی معاشی ناکہ بندی کر کے شہر کا ناطقہ بند کردیا گیا ہے-گزشتہ آٹھ ماہ سے مسلط اس معاشی ناکہ بندی سے بے پناہ جانی اور مالی ضیاع ہو چکا ہے- اب تک کے اعدادو شمار کے مطابق ڈیڑھ سو افراد خواتین ، بچے اور عمر رسید ہ لوگ علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کے باعث زندگی کی جنگ ہار بیٹھے ہیں- آئے روز کی بمباری سے ہونے والی اموات سے ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے، لیکن ان تمام تر مشکلات و مصائب کے باوجود یہ لوگ اسرائیل کو ایک لمحے کے لیے بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں-
غزہ کی اس دگروں صورت حال میں اسرائیل کے علاوہ فلسطینی صدر محمود عبا س اور ان کی جماعت الفتح کی برابر کی شریک ہے-یہ امر اپنی جگہ باعث حیرت ہے کہ صدر عباس گزشتہ چھ ماہ کے دوران اسرائیل سے مذکرات کے تیس دور کر چکے ہیں-مذاکرات کے ایجنڈے میں کیا ہوتا ہے اور اولمرٹ اور محمود عباس بند کمرے میں آپس میں کیا سخن سازیاں کرتے ہیں، لیکن جب ان کی جانب سے کوئی مشترکہ بیان جاری ہوتا ہے تو اس میں فقط یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ امن بات چیت آگے بڑھ رہی ہے اور فریقین شدت پسندوں کے خلاف ملکر جد و جہد کرنے پرمتفق ہیں- بد قسمتی یہ رہی ہے کہ ان تمام ادوار میں فلسطینی صدر ایک دفعہ بھی اسرائیل پر غزہ کی ڈیڑھ ملین آبادی کے حالات پر بات نہ کر سکے- خو دسر اسرائیل کے سامنے برابری کی سطح پر بات چیت تو درکنارصدر عباس تل ابیب سے اپنا کوئی چھوٹا سا مطالبہ بھی پورا نہیں کر اسکے-
صدر عباس کی نااہلی اور اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں کے باعث غزہ شہر کی کیفیت زندہ لوگوں کے قبرستان جیسی ہو چکی ہے-ایندھن کی قلت تمام مسائل میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے- اسرائیلی غزہ کو دشمن ریاست قرار دے کر ایندھن کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے- فلسطینی محکمہ صحت کے ڈائریکٹرعبدالکریم عابدین نے شہر کی دگرگوں حالت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شہر کے گیارہ بڑے اور بیس چھوٹے ہسپتالوں میں مریض سسک سسک کر جان دے رہے ہیں، ہسپتالوں میں ادویات کی قلت کے ساتھ ساتھ مریضوں کی کثرت میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ بجلی کی بندش کے باعث علاج ناممکن ہو گیا ہے- بجلی نہ ہونے کے باعث ایک طرف شہر تاریکی میں ڈوبا ہو ا ہے اور دوسری طرف ٹرانسپورٹ کا نظام اس سے زیادہ بری کیفیت سے دو چار ہے-عام شہری تو کجا انسانی حقوق کے اداروں کو اپنی ایمبو لینس سروسز جاری رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے- بجلی اور خاتم تیل کی قلت کے بعد گیس کا بحران بھی پھن پھیلا رہا ہے-
شہر میں بڑے بڑے ہوٹل اور نان شاپس تک بند ہو چکی ہیں- ایک عرب خبر رساں ادارے قدس پریس سے اپنی غربت کی داستان بیان کرتے ہوئے شہری پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے-شہریوں نے اسرائیلی جارحیت میں تل ابیب اور رام اللہ دونوں کو برابر کا ذمہ دار قراردیا-
غزہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر فلسطینی شہری ہی سراپا احتجاج نہیں بلکہ عامی ادارے بھی چیخ چیخ کر اسرائیلی مظالم کی داستان کہہ رہے ہیں، لیکن مجال ہے کہ عالمی برادری کے کان تک جون تک رینگے- حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارے نے عالمی برادری کے عدم تعاون اور اسرائیل کے مسلسل حملوں کے باعث غزہ میں احتجاجا اپنا کام بند کرنے کا فیصلہ کیا- جہاں اقوا م متحدہ جیسا ادارہ بے بس ہو کر رہ گیا ہو وہاں سطح زندگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے- عالمی ادارے کے مندوب برائے فلسطینی پناہ گزین جان جینگ نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی جانوں سے کھیل رہا ہے-
صدر محمود عباس کی جماعت الفتح اسرائیلی جارحیت میں اس کے بازو کی حیثیت رکھتی ہے- غرب اردن میں حماس اور دیگر آزادی پسند شہریوں کا جینا دو بھر کر دیاگیا ہے- صدر محمود عباس کے زیر کمانڈ سکیورٹی فورسز نے حماس کے پانچ سو سے زائدارکان کو گرفتار کر رکھا ہے- اس کے علاوہ حماس سے ہمدردی رکھنے والوں کو پکڑ پکڑ کر اسرائیل کے حوالے کیا جارہا ہے – ایسے میں فلسطینی شہریوں کا فتح کے خلاف بھی غم وغصہ بڑھنا فطری ہے – فلسطینی شہریوں کی فتح سے نفرت کا ایک سبب اس کا حماس سے مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرنا بھی شامل ہے- حماس نے داخلی امور کے حل کے لیے با رہا فتح قیادت کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن اس نے مستر دکردیا-
اسرائیلی جارحیت اور غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے مجاہدین نے حال ہی میں مصری توسط سے اسرائیل کو جنگ بندی کی پیش کش بھی کی ہے، لیکن ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو مزاحمت کاروں اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی-حماس، جہاد اسلامی اور پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ کی جانب سے اسرائیل سے جنگ بندی کی پیش کش میں کہا ہے کہ وہ برابری کی بنیاد پر اسرائیل سے بات چیت کرنے پر تیا رہیں- فلسطین کی جانب سے جنگ بندی کا مسودہ لے کر مصری انٹیلی جنس چیف عمر سلیمان تل ابیب پہنچ چکے ہیں ،لیکن اسرائیلی حکام کا رویہ انتہائی نا پسندیدہ دکھائی دے رہا ہے –
اسرائیلی وزیر دفاع نے سلیمان سے ملاقا ت میں جنگ بندی کو حماس کے ہاں جنگی قیدی جلعاد شالط کی رہائی سے مشروط قرار دیا -مجاہدین سے جنگ بندی سے متعلق جب وزیر مواصلات شاؤل موفاذ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ اسرائیل کے لیے حماس اور جہاد اسلامی جیسی جماعتوں سے سیز فائر کرنا ایک نادر فیصلہ ہو سکتا ہے-
کیونکہ اسرائیل نے کبھی بھی اپنی دشمن طاقتوں سے بات چیت کرنے کوشش نہیں کی- انہوں نے کہا کہ حماس سے جنگ بندی کا مقصد اسے اسرائیلی تنصیبات پر حملوں کی تیاری کا موقع فراہم کرنا ہو گا، لہذا حکومت کو ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرنا چاہیے جس سے مجاہدین سے مصالحت ہو اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کی تباہی- مجاہدین کی جانب سے پیشکش اس لیے بھی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ اسرائیل میں سکیورٹی سے متعلق ادارے حکومت کو اس حوالے سے سخت تنبیہ کر چکے ہیں- اسرائیلی آرمی چیف گابی اشکنازی نے نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ حماس سے جنگ بندی کافیصلہ اولمرٹ کا ذاتی فیصلہ ہو گا، فوجی کارروائیوں پر اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا- انہوں نے بھی مجاہدین کی جنگ بندی پیش کش کو اسرائیل کے خلاف ایک چال قرار دے کر مسترد کردیا-حماس اور دیگر جماعتوں کی جانب سے جنگ بندی کی پیش کش کا مقصد دراصل غزہ کے حالات کو معمول پر لانا ہے- حالات کو سدھارنے کی یہ کوشش بھی ناکام رہی تو اہل غزہ کسی بڑے المیے سے دوچار ہو سکتے ہیں-
اسرائیل نہ صرف حماس کی جنگ بندی پیش کش میں سنجیدہ نہیں بلکہ وہ غزہ پر فیصلہ کن حملے کی تیاری میں مصروف ہے- ایک عرب سفارت کا رنے حال میں اسرائیلی اخبار ’’یروشلم پوسٹ‘‘ کو اپنا نا م ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیل امریکی فوج کے تعاون سے غزہ پر حملے کا ارادہ رکھتاہے ، اس لیے اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو تا- انہوں نے کہا کہ طویل عرصے سے اسرائیل اور امریکہ کے درمیان حماس کے خلاف کارروائی پر بات چیت چل رہی تھی جو اب حتمی شکل اختیا ر کر رہی ہے-غزہ پر حملے کے لیے امریکی فوج مشرق وسطی کے مختلف اڈوں کو استعمال کر کے حماس حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں-
غزہ کی موجودہ صورت حال پر جہاں اسرائیل حملے کے لیے پر تول رہا ہے وہاں عرب لیگ اوراسلامی کانفرنس جیس تنظیمیں خاموش تماشائی ہیں – حال ہی میں حماس کے راہنما خالد مشعل نے اپنے ایک بیان میں عالمی برادری خصوصا عرب لیگ اور او آئی سی کے منفی کردار پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے اسرائیل کی حامی پالیسی قرار دیا ہے-عرب ممالک میں سعودی عرب ،قطراورلجزائرکے سواعرب دنیاکاکوئی ملک غزہ کی صورتحال کوسنجیدگی سے نہیں لے رہا، جس سے عوامی بے چینی میں مزید اضافہ ہوتا جار ہاہے –
لبنان نظرے اورعقیدے کی جنگ مزید کتنی جانوں کا خراج لے گی؟
بدقسمت ملک لبنان کو فرقہ ورانہ کشیدگی ورثے میں ملی ہے- عیسائی مسلمان، شیعہ سنی او ر دیگر دھڑوں کی باہمی جنگ نے اس سر زمین کو ہر دور میں لہو رنگ کیا -تازہ کشیدگی کی لہرمئی کے دوسرے ہفتے میں اس وقت شروع ہوئی، جب فواد سنیورہ کی سنی حکومت اور حزب اللہ کی شیعہ اپوزیشن کے درمیان باقاعدہ جنگ کی کیفیت پیدا ہو ئی – فواد سنیورہ اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی نئی نہیں-2005 ء میں وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد اب تک حکومت اور اپوزیشن میں خوشگوار تعلقات قائم نہیں ہو سکے- حکومت رفیق حریری کے قتل کی ذمہ داری بھی حزب مخالف جماعت حزب اللہ پر عائد کر تی آئی ہے-ابتداء میں حزب اللہ حکومت میں شامل تھی تاہم کشیدگی بڑھنے کے باعث اس نے اپنے چودہ اراکین کو حکومت سے ا لگ کردیا-اس کے بعد اب تک اپوزیشن بنچوں پر جلوہ افروز ہے-
موجودہ خانہ جنگی کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے حزب اللہ کے ارکان کی گرفتاریاں بتایا جاتا ہے- حزب اللہ کا کہنا ہے کہ حکومت اسرائیل اور امریکہ کے دباؤ میں آکرحزب اللہ کا نیٹ ورک تباہ کرنا چاہتی ہے- چنانچہ اسے اپنے وجودکی بقاء کے لیے حکومت سے پنجہ آزمائی کرنا پڑ رہی ہے-حکومت کا موقف یہ ہے کہ حزب اللہ حکومت کا تختہ الٹنے کی سازشیں کر رہی ہے اس کے علاوہ اس کی پالیسیوں کی وجہ سے لبنان پر اسرائیلی حملوں کا خطرہ بھی سر پر منڈلا رہا ہے -لہذا اس کے خلاف کارروائی ضروری ہو گئی تھی-
حالیہ کشیدگی کا آغاز جس طوفانی انداز میں ہوا تھا ، ماہرین اسے ا نتہائی خطرناک صورت حال سے تعبیر کر رہے تھے او رایسے لگ رہا تھا کہ یہ کشیدگی اب اپنے ساتھ نہ جانے کتنی جانوں کا خون لے جائے گی- گوکہ ایک سو افراد اب بھی اس میں کام آ چکے ہیں، پانچ سو زخمی اور دس ہزار سے زائد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں-حزب اللہ کی جانب سے شہروں کا کنٹرول حکومت کو سپرد کرنے کے باوجود جھڑپوں کا سلسلہ رک نہیں پایا- آغاز میں حز ب اللہ جس سرعت سے دارلحکومت بیروت سمیت دیگر شہروں پر چھاتی چلی جارہی تھی،ایسے لگ رہاتھا کہ اب فواد سنیورہ کی حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں، لیکن اچانک ہی حزب اللہ نے کشیدگی میں نہ صرف کمی کردی بلکہ بیروت سمیت دیگر شہروں کا کنٹرول بھی حکومت کے سپرد کر دیا-حزب اللہ کی اچانک پسپائی اس کی حکمت عملی سمجھی جار ہی ہے- بعض ذرائع اسے ایران اور شام کی مشاورت کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں- حزب اللہ نے اس کشیدگی میں ہونے والے جانی ضیاع کی ذمہ داری حکومت کے علاوہ امریکہ او ر اسرائیل پر بھی عائد کی ہے- حزب للہ کاکہنا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ادارہ موساد ہمیشہ لبنان میں خانہ جنگی کو فروغ دینے کی سازشیں کرتا رہا ہے-
دوسری جانب امریکہ اور اسرائیل بظاہر لبنان میں کسی قسم کی خانہ جنگی میں مداخلت کی تردید کرتے آئے ہیں- امریکہ اور اسرائیل کا مشترکہ موقف یہ ہے کہ حالیہ کشیدگی کے پس پردہ شام اور ایران کا ہاتھ ہے- امریکی محکمہ دفاع پینٹا گان کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہاگیا کہ ایران اور شام خطے کی شدت پسند تنظیموں حزب اللہ اور اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کی مالی مدد کر کے انہیں اسرائیل پر حملوں کے لیے تیار کر رہے ہیں- اس میں دو رائے نہیں کہ لبنان کے داخلی معاملات میں بیرونی ہاتھ کار فر ما ہیں- کیونکہ گزشتہ سات ماہ سے لبنانی صدر کے چناؤ کا مسئلہ معمہ بن ہوا ہے- بار ہا کوششوں کے باوجودحکومت صدارتی انتخاب کے انعقاد میں کامیاب نہیں ہو سکی-
حالیہ خانہ جنگی سے ایک اشارہ فواد سنیورہ حکومت کو بھی مل گیا ہے کہ حزب اللہ جس کے خلاف وہ فوجی آپریشن کرنا چاہتی ہے اتنی کمزور نہیں، جوجماعت صرف تین دن کے اند ر اندر دارالحکومت ، اہم شاہراؤں اور ائیر پورٹس تک قبضہ میں لے لے، اسے کمزور نہیں سمجھا جا سکتا ہے- ا س سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ عوام کی اکثریت حزب اللہ کے ساتھ ہے – اس کا اندازہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کے مظاہروں میں ہونے والی عوامی حاضری ہے، کیونکہ حزب اللہ کے مظاہروں میں لاکھوں کی تعداد میں بلا شیعہ سنی اور عیسائی امتیاز شریک ہوتے ر ہے ہیں- لبنانی عوام کی جانب سے حزب اللہ کی اٹوٹ حمایت اسرائیل کے لیے مقام فکر ہے-کیونکہ اسرائیل حزب اللہ پر حملوں کی آڑ میں لبنان میں دوبارہ اپنی فوجیں داخل کرانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے-
ماضی پرنظرڈالیں توہمیں لبنان ہردورمیں خانہ جنگی کی لپیٹ میں نظر آتا ہے-1943ء میں آزادی کے بعد لبنان کئی بار خانہ جنگی اور فرقہ واریت کی بھینٹ چکا ہے- اقوام متحدہ کی جانب سے جارہ کردہ اعدادو شمار کے مطابق اب تک سوالا کھ لوگ فرقہ واریت کی بینٹ چڑ چکے ہیں- لبنان میں فرقہ واریت کا خونی طوفان اب بھی تھمنے میں نہیں آرہا – ’’نظریے ‘‘اور’’ عقیدے‘‘ کی بناپر پھیلنے والا یہ طوفان اب تک صدر بشیر جمائل، ا مام موسی صدر، کمال جنبلاط، رشید کرامے، مفتی اعظم لبنان مفتی خالد حسن، رفیق حریری ، بیار امین جمیل اور انطوان غانم جیسی نامور شخصیات کو نگل چکا ہے-1975ء سے 1990 تک لبنان سول وار اور بد ترین فرقہ واریت کے طوفانوں سے گزر چکا ہے-
حالیہ کشیدگی کا آغاز19 ستمبر2005ء سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل سے ہوتا ہے – لبنان کی جانب سے مغرب نواز حریری کے قتل میں شام کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، جبکہ شام مسلسل ا س الزام کی تردید کرتا آیا ہے-رفیق حریری کے حامی اقوام متحدہ سے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد ٹریبونل کے قیام کا مطالبہ کرتے آئے ہیں- لبنانی پارلیمان کی منظوری کے بغیر کسی دوسرے ادارے کوغیر جانب دار ٹریبونل بنانے کی اجازت نہیں- تاہم 20ستمبر2007ء کو لبنانی حکومت نے رفیق حریری کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد ٹریبونل بنانے کی منظوری دے دی ہے-
حالیہ کشید گی کے دوسرے باب کا آغاز نومبر2006ء میں اس وقت ہوا جب حزب اللہ، ایمل اور ایک عیسائی جماعت ’’فری پیٹریاٹ موومنٹ‘‘ نے کابینہ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کیے-سال 2006ء میں حکومت لبنان نے سابق وزیر اعظم رفیق حریر ی کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد ٹریبونل قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو حزب اللہ نے اس کی مخالفت کی اور3 نومبر2006 کو کابینہ سے الگ ہو گئی-حکومت نے یہ فیصلہ موخر کردیا-
21نومبر 2006ء کو لبنان کے اہم سیاسی راہنما بیار امین جمیل کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کے ہلاک کردیا – اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قتل کی مذمت کرتے ہوئے مقتول کو محب وطن اور لبنان کی سلامتی، سیاسی خودمختاری اور آزادی کی علامت قرا ردیا-
یکم دسمبر2006ء کو حزب اللہ، ایمل اور ایک عیسائی پارٹی ’’فری پیٹریاٹ موومنٹ‘‘ نے لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر نکال کر حکومت کے خلاف احتجاج کیا- ان مظاہروں میں شام حزب اللہ کی حمایت کررہا تھا جبکہ سنیورہ کو سعودی عرب کے علاوہ امریکہ، فرانس، اور یورپی یونین کی حمایت حاصل تھی، علاوہ ازیں پارلیمان کی اکثریت بھی اپوزیشن کے مطالبات کی مخالف تھی-
اپوزیشن نے استعفے دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ لبنانی حکومت عوام کی صحیح نمائندگی نہیں کرتی نیز شیعہ اتحاد جس میں حزب اللہ اور ایمل جیسی جماعتیں شامل تھیں کا مطالبہ تھا کہ انہیں پارلیمان میں ’’ویٹو پاور‘‘ کے حصول کے لیے مزیدکوٹہ فراہم کیاجائے- تاہم فواد سنیورہ نے حزب اللہ کے لبنانی آئین پر اثر انداز ہونے کے لیے دباؤ مسترد یا-
19 ستمبر 2007ء بروز بدھ رفیق حریری کی دوسری برسی کے موقع پر ہزاروں افراد بیروت کے وسط میں شہداء قبرستان میں ان کی قبر پر جمع ہوئے- اس سے ایک روز قبل بیروت میں ایک بس بم دھماکے میں تین افراد جاں بحق ہو گئے تھے- اسی طرح رفیق حریر کی برسی کے موقع پر شام مخالف راہنما انطوان غام کو ان کی کار میں ایک دھماکہ کر کے ہلاک کر دیا گیا – اس دھماکے ان میں د و ساتھیوں سمیت آٹھ افراد کی جانیں ضائع ہوئیں- غانم کی ہلاکت کے بعد سنیورہ حکومت کے اراکین کی تعداد انہتر سے کم ہو کر اڑسٹھ رہ گئی ہے-