بجلی بار بار بند ہو جاتی ہے کیونکہ واحد پاور پلانٹ اسرائیلی بمباری سے بری طرح تباہ ہو چکا ہے اور باہر سے فالتو پرزے منگوانے کی اجازت نہیں دی جا رہی لیکن عملی طور پر ہویہ رہا ہے کہ یہ حکومتیں نہ تو خود اسرائیلی ناکہ بندی کا شکار فلسطینیوں کی مدد کرنے کیلیے کوئی قدم اٹھا رہی ہے بلکہ انگلینڈ اور دیگر ممالک کے عوام کی طرف سے انسانی ہمدردی رکھنے والی تنظیموں کی امداد کو غزہ پہنچنے کی راہ میں حائل ہو رہی ہے-
یہ بات طے ہوچکی ہے کہ امریکا افغانستا ن میں دہشت گردی کیخلاف لڑی جانے والی مبینہ جنگ جیت نہیں سکتا-گزرے آٹھ سالوں میں ناٹو ممالک کی ایک لاکھ سے زائد سپاہ افغانوں نے جذبہ حریت اور جنگجوئی کو نہ تو کمزور کر سکی ہے اور نہ ہی ان کی حربی و جنگی صلاحیت میں کسی قسم کی کمزوری کے آثار پیدا ہو ئے ہیں بلکہ امریکی صدر اوباما جون 2011ء تک اپنی جنگی مہمات کو فیصلہ کن بنا کر فوجی انخلاء کے پروگرام کا اعلان بھی کر چکے ہیں-
تیس ہزار مزید سپاہ کی افغانستان روانگی اسی پالیسی کا حصہ ہے کہ 2011ء کے وسط تک بھرپور فوجی کارروائیوں کے ذریعے ممکنہ حد تک کامیابی حاصل کر کے افغانوں کو حملہ آور افواج کے ساتھ بات چیت کیلیے آمادہ کیا جا سکے اس مقصد کیلیے عسکری دباؤبھی بڑھایا جا رہا ہے اور بات چیت کیلیے رابطے بھی تلاش کیے جا رہے ہیں-افغانستان میں حامد کرزئی کی حیثیت امریکی پٹھو کی سی ہے اس لیے وہ اس حوالے سے امریکیوں کی مددنہیں کر سکتے ہیں جبکہ پاکستان اور سعودی عرب شائد اس پوزیشن میں ہیں کہ ’’بات چیت‘‘ کی امریکی پالیسی کو آگے بڑھا سکیں-
امریکا و برطانیہ آٹھ سالوں سے جاری لا حاصل جنگ میں عربوں کھربوں ڈالر کے وسائل جھونک چکے ہیں کہ وہ یہاں سے کچھ حاصل کر کے نکلے ہیں اس لیے بات چیت کیساتھ ساتھ کسی نہ کسی شکل میں عسکری فتح کا بندوبست بھی کیا جا رہا ہے-نوے کی دہائی میں سویت یو نین کے خاتمے کے بعد ’’تہذیبوں کی جنگ‘‘کے نظریے کے تحت مسلمانوں کو اس مقصد کیلیے چنا گیا کہ انہیں مارا جائے کچلا جائے اور بالآخر مغربی تہذیب کی بالا دستی پر مہر تصدیق ثبت ہو جائے-اسی پالیسی کے تحت کویت کی آزادی کے نام پر عراق پر حملہ کیا گیا – اس کے بعد 9/11کے واقعات کو بنیاد بنا کر افغانستان اور عراق کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا-
ارض مقدس میں اسرائیل کو چودھری کا رتبہ دیا جا چکا ہے اور تمام عرب ریاستوں کے حکمران اسرائیل کے سامنے جھکے ہوئے ہیں – عربوں میں مصری اور شامی لڑنے والے تھے گزری چھ دہائیوں کے دوران امریکا برطانیہ اور دیگر عیسائی یورپی اقوام نے مل جل کر ان عرب ریاستوں کی عسکری قوت کا خاتمہ کر دیا ہے لیکن فلسطینی قوم چھے دہائیاں گزرنے کے باوجود اپنی آزادی کیلیے لڑ رہی ہے- تحریک آزادئ فلسطین اور حماس کی شکل میں تحریک آزادی آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے-
ایک واقعہ چھ جنوری کو دیکھنے میں آیا جب ایک امدادی قافلے کے ارکان کو العریش میں مصری پولیس نے بڑے بے رحمی سے پیٹا جو بہت ضروری ادویات غزہ لے جانے کی کوشش کر رہے تھے-بہت سوں کو گرفتار کر لیا گیا اور انہیں صرف اس وقت چھوڑا گیا جب ترک وزیرخارجہ احمد داؤد اوغلو نے ذاتی طور پر مداخلت کر کے مصری حکام سے سفارش کی دو روز پہلے مغربی ممالک کے پر امن مظاہرین کو قاہرہ میں اس وقت پیٹا گیا جب انہوں نے فلسطین کے بارے میں مغربی پالیسی کی مذمت کرنے کی کوشش کی جو فرانسیسی سفارتخانے کے باہر پر امن دھرنا دے رہے تھے-
عرب حکمرانو ں کا یہ رویہ بعض مشرکین مکہ کے رویے سے بہت ملتا جلتا ہے جب مکہ کے سرداروں نے نبی اور آ پ کے صحابہ اور قبیلہ بنوہاشم کو شعب ابی طالب میں محصور کر دیا تھا- تین برس کے محاصرے کے بعد اس ظلم پر بعض مشرکین اتنے پریشان ہو ئے تھے کہ انہوں نے نبی کے سخت دشمن ابو جہل جیسے لوگوں کو للکارتے ہوئے اس ناکہ بندی کو توڑنے کا فیصلہ کر لیا- زبیر مخزومی (نبی کا ایک غم زدہ اور آپ کی پھوپھی عاتکہ کا بیٹا)معتم ابن عدی اور زمعہ ابن الاسد جیسے نام ذہین میں آتے ہیں جو کہ دورجاہلیت میں بھی ظلم کو دیکھ کر اس کی مذمت کرتے اور اس کیخلاف اٹھ کھڑے ہوتے تھے تاہم آج کے مصر اردن اور دیگر عرب حکمران مسلمانوں اور انسانیت کے بدترین دشمن صہیونیوں کیساتھ کھڑے نظر آتے ہیں تاکہ اپنے مسلمان بھائیوں کو بھوکوں مار کر اطاعت پر مجبور کر دیں
اگر حسنی مبارک کی پولیس غیر ملکی شہریوں کو ان کے حقوق کا لحاظ کیے بغیر پیٹ سکتی ہے جبکہ وہ اس امر سے آگا ہ ہیں کہ ایسی خبریں بیرون ملک چھپ جائیں گی تو خود مصری عوام سے کس قدر برا سلوک ہوتا ہو گا- انسانی ہمدردی کے کاموں میں سرگرم پرامن افراد کی پیٹائی اور غزہ میں محصور فلسطینیوں کو خوراک و ادویات کی فراہمی روکنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصر میں حکمران آمریت کا امریکی اور اسرائیلی حکومتوں سے تعاون کس درجے کا ہے-
جہاں تک مصری حکومت کاتعلق ہے اس کے اپنے عوام اس کے دشمن ہیں- یہی وجہ ہے کہ مصر عوام کو قابو میں رکھنے کیلیے 1981ء میں حسنی مبارک کے برسراقتدار آ نے کی دو لاکھ پولیس نفری کی تعداد آج دس لاکھ ہو چکی ہے گویا غزہ کی پٹی کے گرد صہیونی ریاست کا بیالیس ماہ طویل محاصرہ کافی برا نہیں تھا جس نے بہت ضروری خوراک و ادویہ کو غریب فلسطینیوں تک پہنچنے سے روک رکھا ہے کہ اب حسنی مبارک نے بھی اپنا محاصرہ سخت کر دیا ہے مصری وزیر خارجہ احمد ابو الغیط نے کہا کہ مصری علاقے میں سے کسی امدادی قافلے کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی – ان کا بیان حکومتی ترجمان اخبار الاہرام نے دس جنوری کو شائع کیا –
’’ الاہرام‘‘ کے مطابق ابو الغیط نے کہا تھا کہ مصر اب قافلوں کو اپنے علاقے سے گزرنے کی اب اجازت نہیں دے گا قطع نظر اس کے کہ وہ کہاں سے چلے یا کون ان کو منظم کرتا ہے – مصری حکومت کی یہ اعلانیہ پابندی اس واقعہ کے دو دن بعد عمل میں آئی جب مصری پولیس نے مصر کی غزہ سے ملحقہ سرحد رفح پر برطانیہ رکن پارلیمنٹ جارج گیلوے اور ان کے معاون رون میکے پر حملہ کر کے انہیں گھسیٹ کر ایک وین میں ڈالا اور ائیر پورٹ کی طرف بھگا لے گئی تھی اور وہاں انہیں واپس لندن جانے والی پرواز میں بیٹھا دیا گیا- گیلوے اپنی قیادت میں دو سو ٹرکوں کا امدای قافلہ لایا تھا جو خوراک و ادویہ غزہ لے جا رہا تھا- قافلے میں مختلف ممالک کے پانچ سو سے زائد رضا کار شامل تھے-یاد رہے کہ گیلوے مسلمان نہیں پھر بھی اس نے محسوس کیا کہ اسے فلسطین عوام کے مسائل ختم کرنے کیلیے کچھ کرنا چاہیے – ایک سال کے اندر گیلوے کا یہ تیسرا امدادی قافلہ تھا-
غزہ کی پٹی کی واحد سرحد جو اسرائیل سے ہٹ کر ہے اسی پر رفح بارڈر کراسنگ واقع ہے جسے بند کرتے ہوئے مصری حکومت نے عذریہ تراشا کے یہ سرحدی چوکی ایک مصری اسرائیلی کراسنگ ہے اور اسے تل ابیب کی اجازت کے بغیر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے-یوں مبارک حکومت نے تسلیم کر لیا کہ وہ صہیونیوں کی کٹھ پتلی ہے- چھ جنوری کو رات گئے جب قافلہ غزہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا تو فلسطینیوں نے اس کا پھولوں اور تالیوں سے استقبال کیا-
فلسطین کی صہیونیوں کی طرف سے ناکہ بندی کی طرح جو غرب اردن کے اردگرد ایک غیر قانونی دیوار تعمیر کرنے میں مصروف ہیں ،مصر بھی اپنی ایک دیوار تعمیرکررہاہے جو زیر زمین ہے- 80فٹ گہری کنکریٹ کی اس دیوار کا مقصد فلسطینیوں کو سرنگیں کھودنے سے روکناہے جن کے ذریعے وہ اشد ضرورت کی خوراک اور ادویات غزہ کی پٹی میں لاتے ہیں- مصر میں دیگر تمام ظالمانہ اقدامات کی طرح اس دیوارکے لیے سرمایہ بھی امریکا فراہم کررہاہے- 18جنوری کو قاہرہ کے امریکی سفارتخانے کے تین ارکان نے زیر زمین دیوار کی تعمیر کی ’’ترقی ‘‘ کا جائزہ لینے کے لیے غزہ کی سرحد کا دورہ کیا-
مصری رکن پارلیمنٹ طلعت سادات جو پارلیمانی کمیٹی برائے دفاع و قومی سلامتی کے رکن ہیں ،انہوں نے کہاکہ دیوار تعمیر کرنے کا حکومتی فیصلہ غیر قانونی ہے کیونکہ ایسے امور کے فیصلے کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی ہی مجاز ہے – دلچسپ بات یہ ہے کہ طلعت سادات انور سادات کے بھتیجے ہیں – وہی انور سادات جسے صہیونی ریاست کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے جرم میں 6اکتوبر 1981ء کو ایک غیر تمند مصری فوجی افسر (خالد اسلامبولی ) فوجی نے پریڈ کے دوران گولیاں برسا کر ہلاک کردیا تھا- ایک طرف مصر اپنی آبادی اور بڑی تعداد میں اعلی تعلیم یافتہ ماہرین اور سکالرز اور عالم اسلام (بلکہ پوری دنیا ) کی قدیم ترین یونیورسٹی الازہر کی بناء پر شاید مشرق اوسط کا اہم ترین ملک ہے دوسری طرف یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ خطے کے دیگر چھوٹے ممالک سے کسی طور مختلف ہے-
اس تضاد کا سبب کیا ہے ؟ مصر کی بدترین ناکامی کی ذمہ داری اوروں سے بڑھ کر جس ایک شخص پر لازماً عائد ہوتی ہے وہ حسنی مبارک ہے جو اکتوبر1981ء سے مصر کا صدر چلا آ رہاہے جب اس کے پیش رو انور سادات کو گولی ماردی گئی تھی- اس وقت سے نافذ ہنگامی حالت کی ہر چھ ماہ بعد توسیع کردی جاتی ہے اور تب سے حسنی مبارک آہنی ہاتھ سے مصر پر حکمران چلا آ رہاہے – مصر میں ہزاروں لوگ بدترین حالات میں جیلوں میں پڑے سسک رہے ہیں – انہیں پنجروں میں جانوروں کی طرح رکھا جاتاہے ، اکثر کو کپڑے اتار کر برہنہ کردیا جاتاہے اور ان پر کتے چھوڑ دیئے جاتے ہیں -سیکڑوں راسخ العقیدہ مسلمانوں کو صرف اس وجہ سے پھانسی پر لٹکا دیا گیا کہ وہ اچھے مسلمان تھے – جو لوگ نماز فجر کے لیے مسجدوں میں جاتے ہیں ،سرکار کی خفیہ پولیس انہیں اس لیے گرفتار کرلیتی ہے کہ وہ اسلامی لحاظ سے بہت مخلص نظر آتے ہیں – اخون المسلمین کے سید قطب پر ایک الزام یہ بھی لگایا گیاتھاکہ وہ راسخ العقیدہ ہے انہیں اگست 1966ء میں جمال عبدالناصر کی حکومت نے ایک مضحکہ خیز مقدمے کے بعد تختہ دار پر چڑھا دیا تھا-
وہ جمال عبدالناصر جسے مصر اور وسیع تر مشرق اوسط میں بہت لوگ ایک طرح کا عرب ہیرو خیال کرتے ہیں – سید قطب ایک عظیم مسلم سکالر اور مصنف تھے جن کی شاندار تصانیف میں فی ظلال القرآن بھی ہے جو قرآن کریم کی عظیم تفسیر ہے ، چنانچہ کئی اہل علم یہ کہتے ہیں کہ سید قطب جیسے مسلم عالم فاضل کے خلاف صدر ناصر کی درندگی اور جرائم کے باعث ہی اللہ نے اس کی حکومت کو بطور سزا اسرائیل کے مقابلے میں جون 1967ء کی چھ روزہ جنگ میں رسوا کن شکست سے دو چار کیاتھا- جمال عبدالناصر کے اخوان پر ظلم و تشدد کی داستان بڑی ہولناک ہے اس کے مقابلے میں آپ غزہ کے غیر مسلح فلسطینیوں کی جرات اور شجاعانہ مزاحمت کی داد دے سکتے ہیں جنہوں نے بائیس دن اسرائیلی بمباری کا سامنا کیا اور ہتھیار نہیں ڈالے-
دو سال پہلے ایسی ہی جرات کا مظاہرہ لبنان میں حزب اللہ نے کیاتھا- غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے کے نتیجے میں اسرائیلی فوج کے کئی افسران اور سیاسی رہنما اس خوف کی بناء پر دنیا کے کئی حصوں میں سفر نہیں کرسکتے کہ انہیں جنگی مجرم جان کر گرفتار کرلیا جائے گا- لیکن یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ مسلم حکمران اپنے برادر مسلمانوں بالخصوص ان غزہ والوں کو کچلنے کے لیے صہیونیوں سے تعاون کررہے ہیں جنہوں نے خوراک ، ادویات اور ہر طرح کی بیرونی امداد کے فقدان کے باعث اس قدر مصائب برداشت کئے ہیں اور مسلسل برداشت کررہے ہیں- یہ ان کا کمزور نہ پڑنے والا ایمان ہے کہ اللہ نے فلسطینیوں کو جدوجہد کرنے اور زندہ رہنے کے لیے حوصلہ عطا کیا ہے – اسے دیکھ کر ایسا لگتاہے کہ اللہ رب العزت انہیں کسی بڑے کام کے لئے تیار کررہاہے او ر وہ ہے قبلہ اول کی آزادی –
بشکریہ سنڈے میگزین نوائے وقت