ہاروڈ فرائیڈ مین کٹر امریکی یہودی ہیں- قیام اسرائیل کے تین سال بعد1951ء میں انہوں نے اسرائیل میں یہودیوں کی ہر ممکنہ مدد کو یقینی بنانے کے لیے’’امریکن اسرائیل پبلک افیئر کمیٹی‘‘ ایپک کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی- ایپک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ اسرائیل کے لیے بے پایاں امریکی نوازشات دونوں ممالک کو ایک دوسرے کا جگری دوست بنادیں گی، لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں ممالک کے عوام او ر حکام کی سوچ ایک ہو، اہداف یکساں اور مہمات مشترکہ ہوں- ہماری کوشش ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کو اس طرح یک جان و دو قالب کردیں کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے اپنا سب کچھ وقف کردینے کے لیے تیار ہوجائیں- تل ابیب کو خطرہ درپیش ہو تو واشنگٹن اس خطرے کو اپنا خطرہ سمجھے، اور واشنگٹن پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہوں تو تل ابیب ان خطرات سے نمنٹے کے لیے خود کو تیار کرے – دونوں ممالک کے دشمن ایک ہوں اور دونوں ریاستیں کسی تیسرے ملک کو دوست بنانے سے قبل ایک دوسرے کی دفاعی پالیسوں اور ضروریات کو دیکھ لیں‘‘-
اسرائیل کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ میں مقیم یہودی لابی نے ہاروڈ کے ان الفاظ کوسچ کر دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی- کثیر الاشاعتی عبرانی روزنامے ’’یدیعوت احرونوت‘‘ کی حالیہ رپورٹ میں ایپک کے بارے میں یوں تبصرہ کیا گیا ہے’’ ایپک دنیا بھر کے یہودیوں خصوصا امریکی یہودیوں کا ایک منظم ادارہ ہے، صرف امریکہ میں اس کے اراکین کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے- امریکہ کی تمام سیاسی جماعتوں خصوصا ڈیموکریٹس اور ریپبلکن پارٹی میں اس کا گہرا اثر رسوخ ہے- اسرائیل کے لیے امریکی امداد اور یہودیوں کے لیے فنڈ ریزنگ اسی تنظیم کا کارنامہ ہے – اس نے اپنے بانی کی کاوشوں کو عملی جامعہ پہنانے اور اسرائیل میں آباد یہودیوں کی خدمت میں ایک مہربان ماں کا کردار ادا کیا‘‘-
امریکہ کا اسرائیل کے لیے تاریخی اور غیرمشروط تعاون ایک ایسا سوال ہے جس پر دنیا کے سنجیدہ حلقے ہمیشہ انگشت بدنداں رہے ہیں- خود امریکی ماہرین اسرائیل کے لیے امریکہ کی بے پایاں نوازشات کو حکام کی جانبدارانہ پالیسی قرار دیتے ہیں- یہود نواز امریکی پالیسی پر لیبیا سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامے ’’گلف ٹائم‘‘ کا تبصرہ محل نظر ہے- اس میں امریکی اسرائیل نوازی کی یہ وجووہات بیان کی گئی ہیں-
امریکیوں کا خیال ہے کہ مشرق وسطی میں اسرائیل کے علاوہ کوئی ایک بھی جمہوری ریاست موجود نہیں، لہذا امریکہ چونکہ جمہوریت کا چیمپیئن ہے، اس لیے وہ اسرائیل کو نواز رہا ہے-
اسرائیل مشرق وسطی میں امریکی مفادات کا نگہبان اور محافظ ہے، امریکہ اسرائیل کی مدد نہیں کر رہا بلکہ اپنے مفادات کی قیمت ادا کر رہا ہے- اسرائیل محل وقوع کے اعتبار سے عرب ممالک کے سنگم پر ہے، اس لیے عرب ممالک کو کنٹرول کرنا اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنا اس کے لیے نسبتا آسان ہے- خود امریکہ کو اس کے محل وقوع کی اہمیت کی وجہ سے اپنے مفادات کے حصول میں آسانی ہے-
عرب ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں، پورے یورپ کی انڈسٹری میں عرب تیل رگوں میں خون کی مانند ہے- لہذا اسرائیل امریکہ اور یورپ کے لیے مشرق وسطی میں تیل کے ایک اڈے کی حیثیت رکھتا ہے-
ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہمیشہ بعض خلیجی ممالک مثلاً شام اور ایران سے خائف رہا ہے- مشرق وسطی کے بعض ممالک میں قائم اسلام پسند تنظیمیں امریکہ کے لیے ہمیشہ ایک خطرہ رہی ہیں- اسلام پسند تنظیموں کے علاوہ ایران اور شام جیسے ممالک خود امریکی سلامتی کے لیے چیلینج کی حیثیت رکھتے ہیں- انہیں غیر موثر کرنے، ان کی سرکوبی اور مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے امریکہ کو اس خطے میں ایک ایسی ریاست کی اشد ضرورت رہی ہے جو اس کے مقاصد کی نگہبانی کر سکے- اسرائیل نے امریکہ کی یہ ضرورت ہمیشہ پوری کی- چنانچہ مشرق وسطی میں جب بھی جنگ بر پاہوئی (چاہے وہ جنگ امریکہ نے شروع کی یا اسرائیل نے) دونوں ممالک نے اسے ذاتی مہم جوئی کی حیثیت دی اور شانہ بشانہ لڑتے رہے-
امریکہ کو جب بھی ضرورت پڑتی ہے تو وہ اسرائیل کو پڑوسی ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کے لیے اکساتا رہا ہے- یہی وجہ ہے امریکہ نے اسرائیل کو منہ مانگی امداد بھی فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی- اسرائیل کی اس مداخلت پر بھی امریکہ صہیونی ریاست کو مراعات سے نوازتا رہا ہے- مثال کے طور پر 1971 امریکی سلامتی کونسل کے مشیر ہنری کسنجرنے اسرائیل کو اردن میں فوجیں داخل کرنے کی تاکید کی تھی- اسرائیل کی اس مداخلت کا مقصد اردن میں شامی فوجوں کا مقابلہ کرنا اور انہیں پسپائی سے دوچار کرنا تھا-
اسرائیل کی موجودگی کے باعث بعض عرب ممالک بھی امریکہ کے ساتھ ساز باز کرنے اور اس کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، امریکہ نے ہر عرب ملک کوراضی کرنے کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پیشگی شرط عائد کر رکھی ہے-
قیام اسرائیل (1948 ء) کے دوران اس وقت کے امریکی صدر ٹرومین نے پہلی فرصت میں نومولود ریاست اسرائیل کے لیے 135 ملین ڈالر کی امداد منظورکی- ٹرومین نے اس وقت اسرائیلی وزیر اعظم بن گوریون کو یہ خطیر رقم دیتے ہوئے کہا تھاکہ’’دیکھو اس رقم کے دو مقاصد ہیں، اول یہ کہ پوری دنیا میں بکھرے یہودیوں کو اسرائیل لاؤ اور ان کی آباد کاری کا بندو بست کرو، ثانیا خود کودفاعی اعتبار سے ایک ناقابل تسخیر ملک بنا دو‘‘-
کچھ عرصہ قبل دو امریکی ماہرین اقتصادیات پروفیسر جان میری شائمر اور اسٹیفن والٹ نے اسرائیل کے لیے امریکی امداد کا ایک خاکہ تیار کیا- رپورٹ میں کہاگیا کہ ’’صہیونی ریاست کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں امریکیوں میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے- امریکہ میں مقیم یہودی لابی نے لوگوں میں یہودیوں کی امداد کے حوالے سے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں- یہودیوں سے محبت رکھنے والے امریکی اسرائیلی یہودیوں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دیتے ہیں- یہ اثرات محض یہودی کمیونٹی یا ان سے ہمدردی رکھنے والوں تک محدود نہیں بلکہ خود امریکی انتظامیہ بھی یہودی لابی کی اسیر ہوچکی ہے‘‘- انہوں نے اعتراف کیا کہ یہودیوں کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ وہ اسرائیل کی مدد کے لیے امریکیوں میں اس قدر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں- یہی وجہ ہے اسرائیل پوری دنیا میں امریکہ سے امداد لینے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے-
جان والٹ اور اسٹفین کی تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ1979 کے بعد اسرئیل نے جس قدر امریکی معیشت کو نچوڑا اور امداد حاصل کی کسی اور ملک کو محصولہ مجموعی امداداس کا عشر عشیر نہیں- پہلی جنگی عظیم کے بعد سے اب تک اگر امریکہ کی سب سے زیادہ دفاعی اور مالی معاونت حاصل رہی ہو تو ہمارے سامنے صرف اسرائیل کا نام آتا ہے- ایک اندازے کے مطابق اب تک اسرائیل نے امریکہ سے 140 بلین ڈالر کی رقم نقد کی صورت میں سے وصول کی جبکہ اسلحہ اور دیگر سامان حرب ضرب اسکے علاوہ ہے-
عبرانی اخبار ’’یروشلم پوسٹ‘‘ کے مطابق ’’ قیام کے بعد اسرائیل کے لیے امریکی امداد کے حجم میں اضافہ ہوتا رہا ہے- گذشتہ کئی دہائیوں سے امریکہ نے ا پنے لیے اسرائیل کے سالانہ بجٹ میں تین ارب ڈالر کی رقم دینے کا عہد کر رکھا ہے- چنانچہ یہ رقم اسرائیل کو یکمشت ادا کردی جاتی ہے- اس خطیر رقم کا1.8 ارب ڈالر فوجی مدات میں جبکہ بقیہ 1.2 ارب ڈالر کی رقم معیشت کے شعبے کے لیے دی جاتی ہے- اس کے علاوہ اسرائیل پر ایسی کوئی پابندی نہیں کہ وہ یہ رقم بھی اقتصادی شعبے میں خرچ کرے گا- اس میں اسرائیل کی اپنی مرضی ہوتی ہے، تاہم اسرائیل اس 1.2 ارب ڈالر کی رقم میں 25 فیصد فوجی ساز و سامان کی تیار ی پر صرف کر دیتا ہے‘‘ –
نوے کی دہائی میں امریکی کانگریس نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاھو کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس میں طے پایا کہ امریکہ اسرائیل کو دی جانے والی اقتصادی امداد کو بھی بتدریج فوجی امداد میں تبدیل کردے گا- معاہدے کی رو سے یہ رقم مرحلہ وار کم کر کے 2008 تک پوری کی پوری عسکری کی امداد کے لیے خاص کر دی جائے گی- اس کے علاوہ معیشت کے شعبے کے لیے امداد الگ سے دی جائے گی-
اس امدادی پیکیج کی علاوہ امریکہ اسرائیل کے سالانہ دفاعی بجٹ میں بھی 20 فیصد حصہ ڈالتا ہے- چونکہ دفاعی میزانیہ ہر سال یکساں نہیں ہوتا، اس لیے امریکی حصے میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے-
اسرائیل کو ایک امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ اسے امریکہ کی جانب سے حاصل ہونے والی امداد یکمشت ادا کردی جاتی ہے جبکہ دنیا کے کسی دورے ملک کو یہ اعزاز حاصل نہیں- دیگر ممالک کے لیے امریکی امداد عموما تین قسطوں میں ادا کی جاتی ہے اوراس کے لیے بھی امریکی شرائط قواعد وضوابط کے ذریعے کڑی نگرانی کی جاتی ہے کہ کہیں یہ رقم امریکہ مخالف لوگوں کے ہاتھ نہ لگ جائے-
اسرائیل کوایک خصوصیت یہ بھی حاصل ہے کہ یہ ملک امریکہ سے براہ راست بڑے اور جدید ہتھیار بھی کم سے کم نرخوں پر حاصل کر سکتا ہے- اسرائیل کے علاوہ دنیا کے کسی دوسرے ملک کو یہ سہولت دستیاب نہیں-
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق رواں برس کے آغاز میں بش انتظامیہ نے اسرائیل کو گذشتہ برس کی لبنان جنگ کے خسارے کا مداوا کرنے کے لیے اڑھائی ملین ڈالر کی اضافی امداد دینے کا بھی ایک بل منظور کیا- اسرائیل کو یہ امداد رواں موسم گرما کے اختتام تک حوالے کردی جائے گی – امداد نقد، ہتھیاروں کے علاوہ فوجی ساز و سامان کی صورت میں ہوگی- اس خطیر رقم میں 40، ملین ڈالر کی رقم محض یہودی آبادکاری پر صرف کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا- امدادی پیکیج کی منظوری دیتے ہوئے بش انتظامیہ نے تجویز دی کہ اسرائیل اس رقم کو سابق سوویت یونین ریاستوں سے یہودیوں کو اسرائیل آباد کرنے پر خرچ کرے-
’’AIPAC‘‘ امریکہ میں یہودیوں کی مدد کے حوالے سے گاہے گاہے تفصیلات جاری کرتارہتا ہے- حال ہی میں دوامریکی ماہرین اقتصادیات فرائیڈ بریگن اور ٹرن والیم ڈی نے 2001ء سے 2007ء تک اسرائیل کے لیے امریکی امداد کے حوالے سے US Military Assistance And Arms Transfers to Israel امریکہ کی اسرائیل کے لیے فوجی معاونت اور ترسیل اسلحہ کے عنوان سے ایک مقالہ پیش کیا – جس کے مطابق اسرائیل کو سالانہ ملنے والی فوجی امداد کا جدول کچھ اس طرح ہے-
سال فوجی امداد
2001 ء $1975644000
2002 ء $2040000000
2003 ء $2086350000
2004 ء $2147256000
2005 ء $2220200000
2006 ء $2257200000
2008 ء $2340000000
مجموعی امداد $15048960000
اس نقد امداد کے علاوہ بھی امریکہ اسرائیلی اسلحے کی صنعت کے فروغ میں بھی دلچسپی لیتا رہا ہے- عبرانی اخبار’’ یدیعوت احرونوت‘‘ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق 1986ء میں امریکی کانگریس نے اسرائیل میں مقامی سطح پر تیار ہونے والے ’’Aro‘‘ میزائلوں کی تیاری کے لیے اسے ایک ارب ڈالر کی امداد فراہم کی تھی- نوے کی دہائی کے اخیر میں کلنٹن انتظامیہ نے اسرائیل کو دور مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری اور حصول کے لیے 150 ملین ڈالر کی اضافی امداد فراہم کی-
نائن الیون کے واقعات کے بعد امریکی امداد کا اگر کسی نے فائدہ اٹھایا تواس میں بھی اسرائیل سرفہرست دکھائی دیتا ہے- بش انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے اسرائیل سے بھی تعاون حاصل کرنے کے لیے اسے ہنگامی بنیادوں پر امداد فراہم کی- اس طرح 2001ء سے 2005 ء تک امریکہ نے جنگ دہشت گردی کے نام پر اسرائیل کو 1.5 ارب ڈالر دیے- اسلحے کی آمد میں 6.3 ملین ڈالر کی رقم اس کے علاوہ ہے – اسی دوران اسرائیل نے امریکہ سے ساڑھے چار ملین ڈالر کے’’لاک ہیڈ مارٹن کمپنی‘‘16F 102 لڑاکا طیارے بھی انتہائی کم نرخوں پر خریدے- ان پانچ برسوں میں اسرائیل کو امریکہ کی جانب سے اضافی اور جنگ دہشت گردی کی مد میں حاصل ہونے والی امدد کا جدول کچھ اس طرح ہے-
سال جنگ دہشت گردی کے سلسلے میں دی جانے والی امداد
2001 ء $770045000
2002 ء $853000630
2003 ء $862407000
2004 ء $1297072000
2005 ء $2762805000
مجموعی امداد $6323182000
رواں سال کے آغاز میں جب ایران پر امریکی حملے کے امکانات بڑھتے جار ہے تھے اور امریکہ کی کوشش تھی کے اس جنگ میں خلیجی ریاستوں خصوصا سعودی حکومت کا بھی تعاون حاصل کرے- چنانچہ سعودی حکومت کو رام کرنے کے لیے واشنگٹن نے ریاض کے ساتھ جدید ہتھیاروں کی فراہمی کالالچ دینے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کردی- امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس اور وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے تسلسل کے ساتھ مشرق وسطی کے دورے کیے تاکہ خلیجی ممالک کے تعاون کا کوئی راستہ نکالا جا سکے-
ریاض واشنگٹن کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی تعاون پراسرائیل نے سخت احتجاج کیا ، چنانچہ امریکہ نے صہیونی ریاست کو خوش رکھنے اور سعودی حکومت سے خائف نہ ہونے کے لیے ا سے 25 فیصد فوجی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا – بعد میں مس رائس اور مسٹر گیٹس نے اپنے مشرق وسطی کے دوروں میں اسرائیل کو یقین دلایا کہ وہ کسی بھی صورت میں خطے میں اسرائیلی بالا دستی کوٹھیس نہیں پہنچنے دیں گے اور اس مقصد کے لیے وہ اسرائیل کی ہرممکن امداد جاری رکھیں گے- اسرائیلی حکام کو باور کرایا گیا کہ امریکہ اور خلیجی ریاستوں بالخصوص سعودی عرب تعلقات کے فروغ جیسے اقدامات محض ایران کے خلاف ایک نیا محاذ تیار کرنے کی غرض سے اٹھائے جا رہے ہیں، تاکہ ایران کے خلاف ممکنہ محاذ آرائی میں آسانی کے ساتھ سبکدوش ہوا جا سکے-
اسرائیل کے لیے امریکی امداد
اتوار 11-نومبر-2007
لینک کوتاه: