جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیل کو عالمی انتباہ …حقیقت یا پروپیگنڈا ؟

منگل 23-مارچ-2010

1مارچ بروز جمعہ ماسکو میں اربعہ جسےQuartetکہتے ہیں ، نے پہلی بار صہیونی ریاست کو اس کے توسیع پسندانہ اقدام پر انتباہ کیا ہے کہ وہ نہ صرف یروشلم میں مجوزہ رہائشی مکانات کی تعمیر روک دے ، بلکہ مارچ 2001ء سے لے کر اب تک مغربی کنارے میں جتنی چوکیاں تعمیر کی ہیں، انہیں منہدم کردے اور مقامی باشندوں کے مکانات کاانہدام اور ان کا اخراج روک دے لیکن سب سے اہم بات جو اربعہ کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے صہیونی حکومت سے کہی وہ یہ تھی کہ بین الاقوامی برادری نے مشرقی یروشلم کو ضم کرنے کے اسرائیلی اقدام کو نہیں تسلیم کیا اور اس کی حیثیت کا تعین مذاکرات کے ذریعے کیا جائے گا- (ڈان 20مارچ 2010ء )

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اسرائیلی حکومت کو دوٹوک بتا دیا کہ اس کے مذکورہ اقدام کے باعث فلسطینیوں اور اس کے درمیان امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور اسے ہدایت کی کہ فریقین کے درمیان 2012ء تک حتمی صلح نامے کو یقینی بنائے-

ہم اربعہ کے ان اقدامات کو تاخیر کے باعث دیر آدیددرست آید کے مصداق مثبت قرار دیتے ہیں لیکن ماضی کے تجربے کی بناء پر اس شک میں مبتلا ہیں کہ بین الاقوامی برادری فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کو ختم کرنے کے لیے ایسے کئی وعدے وعید کر چکی ہے، اس لیے اس کے پرخلوص اقدام سے بھی اعتماد اٹھتاجا رہا ہے-
 
یاد رہے کہ امریکی صدر جارج بش نے Annapolisمیں فلسطینی مقتدرہ اور اسرائیل کے سربراہوں کو ہدایت کردی تھی کہ 2001ء کے بعد سے تعمیر کی گئی صہیونی بستیاں ختم کردی جائیں اور اسی سال حتمی معاہدہ عمل میں لایاجائے- یہ فیصلہ موصوف نے اس وقت کیا جب اس کی صدارت کی مدت ختم ہونے کے قریب تھی- جبکہ اس کے جانشین اوباما کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ جہاں اس نے جارج بش کی جارحانہ جنگ جاری رکھی، وہاں اس کے فلسطین کے تنازعے سے متعلق فیصلے کو عملی جامہ پہناتا-
یاد رہے کہ ایسی حتمی تاریخوں پر تاریخیں دی جاتی رہیں لیکن وہ گزرتی گئیں- صدر کلنٹن نے بڑی دھوم دھام سے 13ستمبر 1993ء کو تنظیم آزادی فلسطین کے سربراہ یاسرعرفات اور صہیونی ریاست کے سربراہ اسحاق رابن کے درمیان معاہدہ کرایاتھا، جس کا وہ خود ضامن بھی بنا تھا تو اس میں فلسطین کے تنازعے کے حل کی حتمی مدت پانچ سال مقرر کی گئی تھی لیکن وہ بھی گزر گئی اور ساتھ ہی کلنٹن کی صدارت کی مدت بھی ختم ہوگئی، انہوں نے اپنی صدارت کے آخری دنوں میں یاسرعرفات کو مغربی کنارے پر دس فیصد یہودی بستیوں کو تسلیم کرنے پر دباؤ ڈالا تو فلسطینی رہنما نے ماننے سے انکار کردیا- اس پر کلنٹن نے یاسرعرفات کو امن معاہدے کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا ، بعد ازاں اس کے صلیبی جانشین جارج بش نے اسرائیلی وزیراعظم ارئیل شیرون کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ جیسا چاہے برتاؤ کرے-
 
یہ وہی رسوائے زمانہ صہیونی جنرل ہے جس نے ستمبر 82ء میں بیروت پر اسرائیلی قبضے کے دوران مارونی عیسائیوں کے ذریعے صابرہ اور شتیلا کی فلسطینی مہاجربستیوں میں دو ہزار عورتوں ،مردوں اور بچوں کا قتل عام کرایا- اس وقت بین الاقوامی دباؤ پر امریکی حکومت نے اس سانحے کی تحقیقات کرائی تو کمیٹی نے اس کی ذمہ داری ارئیل شیرون پر رکھی اور یہ سفارش کی تھی کہ اسے کوئی ذمے دار عہدہ نہ دیا جائے لیکن یہودیوں نے اسے منتخب کرلیا اور وہ صہیونی ریاست کا وزیراعظم بن گیا- وزیراعظم بننے سے قبل وہ ایک ہزار مسلح افراد کے ہمراہ مسجد اقصی کے احاطے میں عبادت کے لیے داخل ہوا تو اس کے خلاف فلسطینیوں میں شدید اشتعال پیدا ہوا اور مقبوضہ مغربی کنارے میں عوامی احتجاج بھڑک اٹھا، اس طرح انتفاضہ کا دوسرا دور شروع ہوا-

دراصل یہ اسرائیلی قبضے، فرزندان زمین کے جبری انخلاء اور ملک بدری پر اقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی اور بے عملی کے خلاف فلسطینی عوام کا فطری ردعمل تھا- اس کا پہلا دور دسمبر 1987ء میں شروع ہوا، جس کے نتیجے میں تحریک حماس منظر عام پر آئی- جب فلسطینی عوام نے دیکھاکہ ’’بطل حریت‘‘ یاسرعرفات کی قیادت میں تنظیم آزادی فلسطین نے صہیونی قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کو ترک کرکے امریکی استعمار کے دباؤ پر صہیونی ریاست سے لاحاصل مذاکرات کے نہ ختم ہونے والے عمل میں اپنا نصب العین فراموش کردیا ہے تواس کے حامیوں نے مایوس ہو کر حماس کی حمایت شروع کردی جو جنگ آزادی کی قیادت کررہی تھی یعنی حماس تنظیم آزادی فلسطین کا سابقہ کردار ادا کرنے لگی-

فلسطینی عوام نے دیکھ لیا کہ امریکا اور اسرائیل فلسطین کے تنازعے کے عمل میں کتنے مخلص ہیں- ارئیل شیرون کے حکم پر صہیونی قابض فوج نے مقتدرہ کی صدارتی عمارت کامحاصرہ کرکے اس کے سربراہ یاسرعرفات کو محصور کردیا اور بجلی ،پانی ،گیس کاٹ کر گولہ باری شروع کردی- یہ سلسلہ اڑھائی سال تک جاری رہا، پھر اچانک فلسطینی رہنما کی پر اسرار علالت اور ہلاکت کی خبرآئی- یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ مقتدرہ کا محاصرہ اور یاسرعرفات کے صدارتی دفتر کی عمارت پر گولہ باری امریکا کے ایماء پر کی گئی ، کیونکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ امریکی نائب صدر ڈک چینی نے ارئیل شیرون سے یاسرعرفات کے بارے میں کہا ’’جہاں تک میرا تعلق ہے تو تم اسے پھانسی پر لٹکا سکتے ہو‘‘فلسطینی رہنما کی ہلاکت کے بعد ان کی اہلیہ سوہا عرفات اور تنظیم آزادی فلسطین کے وزیرخارجہ فاروق قدومی نے محمود عباس پر یاسرعرفات کو زہر دلوا کر شہید کرنے کا الزام عائد کیا- یہ بات انہوں نے ایک مقبول عرب ٹی وی چینل سے کہی تھی ، جس پر مغربی کنارے کا امریکی پٹھو صدر محمود عباس بہت برہم ہوا-

یہ تو امریکا کا منصوبہ رہاہے کہ فلسطینیوں کو مذاکرات کے گور کھ دھندے میں اتنا الجھایا جائے کہ وہ اپنی منزل سے ہی بھٹک جائیں اور تھک ہار کر نسل پرست صہیونی ریاست کو نو آبادی بننے پر راضی ہوجائیں – یہ ہے مصالحتی عمل کا مدعا- امریکا کے سابق سیکرٹری خارجہ اور بین الاقوامی صہیونیت کا گماشتہ ہنری کسنجر نے 1967ء کی جنگ کے نتیجے میں مغربی کنارے بشمول مشرقی یروشلم اور غزہ پر اسرائیلی قبضے کو مستقل حیثیت دینے کے لیے عرب اسرائیل تنازعے کے تدریجی تصفیے Step by Step Approachطریقہ کار وضع کیاتھا- اس کا مقصد یہ تھاکہ فلسطینیوں کو مسلح جدوجہد سے باز رکھنے کے لیے پہلے تو فرداً فرداً مصر اوراردن کو ان سے علیحدہ کرکے اسرائیل کے ساتھ دونوں کی صلح کرادی جائے، بعد ازاں شام اور لبنان میں محاذ آ رائی کرادی جائے اور اس کے لیے لبنان کے مارونی عیسائیوں کو مسلح کرکے شام کے خلاف استعمال کیاجائے- اس طرح فلسطینی اپنی ہمسایہ عرب ریاستوں کی حمایت سے محروم ہوجائیں گے تو انہیں مذاکرات میں الجھا کر مقبوضہ علاقوں میں غیر ملکی یہودیوں کوآباد کردیا جائے تاکہ اسے بنیاد بناکر مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے زیادہ سے زیادہ علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرلیا جائے- اوسلو مذاکرات کو 17سال ہونے کو آئے اور اس مدت سے فائدہ اٹھا کر اسرائیل نے مالیاتی اداروں سے حاصل کردہ اربوں ڈالر کی رقم سے مغربی کنارے پر ایک دیوار تعمیر کردی ، جس کے ذریعے اس نے 35فلسطینی گاؤں کو ضم کرلیا- بین الاقوامی عدالت انصاف نے 2004ء کو اسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سلامتی کونسل کو اس کے انہدام کی ہدایت کی تھی اور ہمیشہ کی طرح کونسل اور بڑی طاقتیں خاموش ہیں-

ہمیں تو اربعہ کی اس رائے سے بالکل اتفاق نہیں ہے کہ وہ یہودی بستیاں جو 2001ء کے بعد سے تعمیر کی گئی ہیں منہدم کردی جائیں ،کیونکہ سلامتی کونسل نے توتمام یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے- جنیوا کنونشن چہارم برائے مقبوضہ علاقہ جات کی رو سے مقبوضہ علاقے پر قابض ریاست کا قبضہ عارضی ہوتاہے اور وہ مقامی آبادی کو نہ تو نکال سکتی ہے، نہ وہاں کسی کو لا کر آباد کرسکتی ہے- کیا اربعہ صہیونی ریاست کو مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم بخشش کے طور پر دینا چاہتا ہے، جو 2001ء سے قبل کی بستیوں کے انخلاء کی ہدایت نہیں کرتا؟

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ 9 مارچ کو جب امریکی نائب صدر اسرائیل میں وزیراعظم نیتن یاہو کو فلسطینیوں کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے گفت و شنید کر رہا تھا ،اسی وقت صہیونی حکومت نے مشرقی یروشلم میں یہودی آبادکاروں کے لیے 1600مکانات کی تعمیر کا اعلان کیا- (ڈان 10مارچ 2010ء )یہی نہیں بلکہ فلسطینیوں کو اشتعال دلانے کے لیے الخلیل میں مسجد ابراہیمی اور مسجد بلال بن ابی رباح کو صہیونی ورثے کی فہرست میں شامل کرلیا، جس پر فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج میں جھڑپ ہو گئی اورمظاہرین نے پتھراؤ شروع کر دیا تو قابض صہیونی فوج مسجد اقصی میں داخل ہو گئی اور اس میں پچاس سال سے کم عمر کے افراد کا داخلہ ممنوع قرا ر دے دیا-
 
اسرائیل کے اس اقدام کو اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل اکمل الدین احسان اوغلو نے غیر قانونی قرار دیا ، جبکہ حماس نے انتفاضہ کا اعلان کر دیا- مسجد اقصی پر 28 فروری کو تالہ لگانے پر مقامی اور بین الاقوامی احتجاج شدت پکڑتا جا رہا ہے، جس سے مجبور ہو کراسرائیل کو 17مارچ کو مسجد کے دروازے کھولنے پڑے – (ڈان یکم مارچ 2010ء )

حیرت ہے کہ بین الاقوامی تنظیم اربعہ نے صہیونی ریاست سے حماس رہنما محمود المبحوح کے قتل پر باز پرس نہیں کی- فلسطینی قیادت کو چاہیے کہ وہ اربعہ کو کہے کہ وہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے اسرائیل کو کسی حتمی تاریخ تک مہلت دے دے ،ورنہ انتفاضہ ناگزیر ہو جائے اور وہی مسئلے کاحل ہے – 

لینک کوتاه:

کپی شد