جمعه 15/نوامبر/2024

آزادی فلسطین :مذاکرات یا انقلاب ؟

ہفتہ 30-مارچ-2013

صدر اوباما کا اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کا پہلا دورہ خطے میں کشیدگی کو ختم کرانے کی خاطر امریکی سامراج کی منافقانہ اور بے ہودہ سفارتکاری کی ایک اور شدید ناکامی ہے ۔ اس دورے نے اوباما کی شدید کمزوری کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے جو صہیونی جارحیت پسندوں اور امریکی دائیں بازو کو خوش کرنے کیلیے بے شرمی کے ساتھ اپنی بات سے پیچھے ہٹتے ہوئے ان کے آگے جھک گیا۔وہ بار بار یہ کہتا رہا کہ امریکا اسرائیل کا بہترین اتحادی ہے اور وہ اسرائیلی ریاست کی جانب سے فلسطین عوام کے خلاف جرائم کے حمایت جاری رکھے گا ۔ فلسطینیوں کیلیے ایک آزاد ریاست اور قبضے کے خاتمے کے خواب کی تعبیر پہلے سے کہیں دور ہو چکی ہے ۔نمائش سے بھرپور انتہائی اعلیٰ سطح کے اس دورے میں ایک اور امریکی صدر وہی پراناناکام پیغام دے رہا تھا جو کئی حوالوں سے ظالم اسرائیلی ریاست کو جبر جاری رکھنے کا اجازت نامہ تھا۔

اوباما کی آمد سے قبل جلدی میں بنائی گئی اسرائیل کی نئی مخلوط حکومت بنیادی طور پر فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی آبادکاری کے حامیوں ہر مشتمل ہے جو رجعتی حکمران اشرافیہ کی درندگی اور تکبر کی علامت ہے جو بڑے پیمانے پر زمین خالی کروانے ، گرفتاریوں ، غیر قانونی بستیوں کے شہری جنگل بنانے اور کئی نسلوں تک فلسطین پر قبضہ جاری رکھنے پر تلے ہوئے ہیں ۔اقوام متحدہ ، امریکی سامراج اور نام نہاد عالمی برادری کے منافقانہ اعلانات کے باوجود اسرائیلی حکومتیں مستقبل کی فلسطینی ریاست کے مرکز مغربی کنارے میں کافی اندر جا کر یہودی بستیاں تعمیر کرتی رہی ہے کہ ان کو ہٹایا نہیں جا سکتا۔اسرائیلی سرپرستی میں کام کرنے والی مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی نے ‘امن مذاکرات’کی بحالی کیلیے صرف ایک شرط عائد کی ہے کہ نئی یہودی بستیوں کی تعمیرروک دی جائے۔ اوباما نے فلسطین کے برائے نام صدر محمود عباس کو غیر مشروط طور پر امن مذاکرات بحال کرنے کو کہا ہے ۔

اسرائیل میں سولہ لاکھ ، مغربی کنارے میں چھبیس لاکھ اور غزہ کی پٹی میں رہنے والے سترہ لاکھ فلسطینی عملی طور پر صہیونی ریاست کے کنٹرول میں رہنے پر مجبور ہیں ۔ انہیں راستوں میں رکاوٹیں ، ناکہ بندیوں پر تذلیل ، ٹیلی وژن چینلوں کی بندش، فلسطینی علاقوں کو چیرتی ہوئی کنکریت کی دیوار ، پر تشدد گرفتاریوں اور نسلی ا متیاز کا سامنا ہے جو فی الحقیقت جنوبی افریقہ میں 1990 ء میں ختم ہونے والی نسلی پرستی سے بدتر ہے ۔1960سے1970ء کی دہائیاں فلسطین کی تحریک آزادی میںمسلح جدوجہد کا دورتھا ، لیکن یہ طریقہ صہیونی ریاست کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہو گیا ۔ اس ناکامی نے فلسطینی رہنماؤں کو اقوام متحدہ اور مغربی سامراج کے زیر اثر مذاکرات کے ذریعے حل کو قبول کرنے پر مجبور کر دیا ۔1967ء کی مشرق وسطی ٰ کی جنگ کے بعد کے چھیالس برسوں میں بے شمار امن معاہدے اور مذاکرات ہو چکے ہیں لیکن فلسطینیوں کی تکالیف میں کوئی کمی نہیں آئی ۔

بائیس نومبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرار داد دو سو بیالس منظور کی جس میں اسرائیلی مسلح افواج کے حالیہ جھڑپوں کے دوران قبضہ کیے گئے علاقوں سے انخلاء کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ قریبا نصف صدی گزر جانے کے بعد انخلاء کی بجائے مزید علاقوں پر قبضہ ہو چکا ہے ۔اقوام متحدہ متعدد قراردادیں منظور کر چکی ہے لیکن بدمعاش اسرائیلی ریاست ان پر عمل تو درکنار ان پر کان تک نہیں دھرتی۔اکتوبر 1973ء کی جنگ کے بعد نومبر 1977ء میں مصری صدر انور سادات اور اسرائیلی وزیر اعظم بیگن کے درمیان ایک امریکی صدر جمی کارٹر کی سرپرستی میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ طے پایا ۔ فلسطین کے مسئلے کو نظر انداز کر دیا گیا ۔ 1991ء کی میڈرڈ کانفرنس ، 1933ء کا اوسلو معاہدہ ،2000ء کے کیمپ ڈیوڈ مذاکرات ، 2001ء میں بننے والی یورپی یونین ، امریکا ، روس اور اقوام متحدہ پر مبنی چار فریقوں کے گروپ کا امن منصوبہ ، 2002ء کا سعودی امن منصوبہ ، 2003ء کا جنیوا معاہدہ ، 2007ء میں سربراہ اجلاس اور سامراج اور اس کے اقوام متحدہ جیسے بے وقعت اداروں کی کئی اور سفارتی کوششیں فلسطینی کاز کو ذرا سا بھی آگے بڑھانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں ۔

اوباما ایک مرتبہ پھر فلسطین اور صہیونی لیڈروں کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی پر زور دے رہے ہیں اور دو ریاستوں پر مبنی حل کا گھسا پٹا اور بے کار حل پیش کیا جا رہا ہے ۔اگر فلسطینیوں کو ایک آزاد ریاست دے دی بھی جائے تو یہ کٹی ہوئی اورٹوٹی ہوئی ریاست ہو گی اور اسرائیلی ریاست کی معاشی اور عسکری قوت کے سائے تلے اس کا اقتداد اور حاکمیت کسی میونسپل ادارے سے زیادہ نہ ہوگی ۔دائیں بازو سے تعلق رکھنے کا اسرائیل کا موجودہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو دو ریاستوں پر مبنی حل کے بارے میں قطعاخوش نہیں ۔ اس کا اصرار ہے کہ اسرائیل کو وادی اردن پر لازمی کنٹرول کرنا چاہیے  اور اس کے ساتھ فلسطینیوں کی فضائی حدود پر بھی جس کی بدولت وہ درحقیقت اسرائیل کی قید میں ہوں گے۔نیتن یاہو کے پیش رو ایہود المرٹ نے حال ہی میں کہا کہ ”نیتن یاہو نے کبھی کھل کو دو ریاستوں کے حل کی حمایت نہیں کی ”۔ تباہ کن معاشی بحران ، افغانستان اور عراق میں فوجی شکستوں اور ایران ،لاطینی امریکا اور چین وغیرہ میں سفارتی ناکامیوں کے بعد امریکی سامراج ٹراٹسکی کے الفاظ میں ”مٹی کے پیرو والا دیو ہے”۔ اسرائیل کے جارحیت پسند حکمران اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ اوباما کی جانب ان کا رویہ اس کا اظہار ہے۔

جہا ں فلسطین عوام اوراسرائیل کے مظالم سہ رہے ہیں وہیں رجعتی عرب بادشاہوں ، آمروں اور بے پناہ دولت مند شیخوں نے بھی ان سے غداری اورتذلیل کی ۔داخلی مخالفتوں کو کچلنے کیلیے ان کو بیرونی حیلے کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے قائدین مغربی اور اسرائیلی سامراج کے ساتھ سازباز میںملوث ہیں اور کرپشن میں ڈوب کو بے پناہ دولت مند ہو چکے ہیں۔ 2011ء کے موسم بہار میں شروع ہونے والے عرب انقلابات کی لہر کے دوران اور اس کے بعداس حکومت کے خلاف کئی لڑاکا اور غصے سے بھر پور مظاہرے کیے گئے۔غزہ سترہ لاکھ کی آبادی کیلیے ایک قید خانہ ہے ۔اگر حسنی مبارک ظالم تھا تو مرسی اس سے بھی زیادہ بے رحم ثابت ہوا۔ نو مارچ کو اکانومسٹ لکھتا ہے :”مصری حکومت نے حال ہی میں غیر معمولی طور پر سخت اقدام اٹھاتے ہوئے مصری سرحد پر واقع زیر زمین سرنگوں سے غزہ کو اشیا کے نقل و حمل روک دی،جنوری کے آخر میں مصری فوج کے انجینئروں نے ان سرنگوں میں گندا پانی چھوڑ دیا اور ان میں سے درجنوں کو منہدم کر دیا ۔اسرائیل کے پٹھو ہونے کے الزام کورد کرنے کی کوشش میں حماس کے کچھ قائدین مزید سخت مذہبی زبان استعمال کر رہے ہیں ۔۔۔ تیونس کی طرز پر ایک بغاوت کو ابھارنے کی کوشش میں غزہ میں کچھ لوگوں نے خود سوزی کی ہے ۔ حالیہ مظاہرہ جس میں مرد اور خواتین آزادانہ گھل مل رہے ہیں غزہ کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔”

دو ریاستوں پر مبنی حل فلسطینیوں پر ظالمانہ اور مجرمانہ قبضہ برقرار رکھنے کیلیے ایک پردہ ہے ۔ اسرئیلی ریاست اور سامراج کے ہاتھوں تخلیق اور پلنے والے سامراجی حمایت یافتہ مطلق العنان عرب حکومتیں اور بادشاہتیں کبھی بھی ایک فلسطین ریاست کو قائم نہیں ہونے دیں گی۔ یہ مکمل طورپر ایک خواب و خیال ہے ۔قاہرہ ، تیونس،عمان ،بحرین ،یروشلم اور حیفا کی سڑکوں پر نظر آنے والی طاقت نے رجعتی اسرائیلی ریاست اور خطے میں موجود دیگر جابر حکومتوںکو تختہ الٹنے کا ایک اور راستہ دکھایا ہے ۔اسرائیل کی آبادی کا دس فیصد سے زیادہ حصہ سماجی اور معاشی کیلیے سڑکوں پر تھا۔ یروشلم سے لے کر واشنگٹن تک اقتدار کے ایوان لرز گئے تھے۔اسرائیلی محنت کشوں اور نوجوانوں کی عرب بہار میں بڑے پیمانے پر شرکت نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطین کی قومی آزادی کا راستہ اسرائیل میں طبقاتی جدوجہد سے ہو کر گزرتا ہے ۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

لینک کوتاه:

کپی شد

مطالب بیشتر از ڈاکٹر لال خان