مسجد اقصیٰ میں غاصب صہیونیوں کی طرف سے 52 سال قبل لگائی گئی آگ اور دہشت گرد صہیونی مائیکل روہان کی سازش کو باون سال ہوگئے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے امام اور ممتاز فلسطینی عالم دین الشیخ عکرمہ صبری اس وقت نوجوان تھے جب انہوں نے قبلہ اول میں آتش زدگی کا خوفناک مرحلہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
اپنے ایک انٹرویو میں الشیخ عکرمہ صبری نے بتایا کہ جب مسجد اقصیٰ میں آگ لگائی گئی تو اس وقت انہوں نے کیا دیکھا اور مسجد میں لگی آگ کو کیسے بجھایا گیا؟ وہ بتاتے ہیں مسجد اقصیٰ میں لگائی گئی آگ پر قابو پانے کے لیے آنے والے فلسطینیوں کو روکنے میں بھی صہیونی فوج اور پولیس پیش پیش رہی۔
یہ جمعرات 21 اگست 1969ء کا دن تھا۔ الشیخ عکرمہ صبری اس وقت بیت المقدس کے مشرق میں الجوز کالونی میں رہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ مقامی وقت کے مطابق صبح چھ بج کر 30 منٹ پر انہوں نے اپنے گھر سے دھوئیں کے بادل آسمان کی طرف اٹھتے دیکھے۔ یہ بادل مسجد اقصیٰ کی سمت میں تھے۔ ہمیں اندیشہ ہوا کہ قبلہ اول کو آگ لگ چکی ہے اور ہمارا اندیشہ درست ثابت ہوا۔ سب لوگ اپنے تمام کام کاج چھوڑ کر قبلہ اول کی طرف دوڑ پڑے۔
سارے سارے مرد ، عورتیں اور بچے قبلہ اول کی طرف جا رہے تھے۔ القدس کی تمام کالونیوں میں ایک ہلچل مچ گئی تھی اور لوگ دیوانہ وار قبلہ اول کی طرف دوڑے چلے آ رہے تھے۔ انہوں نے ہاتھوں میں برتن اور کپڑے کے تھیلے اٹھا رکھے تھے جن میں وہ مٹی اور پانی اٹھا کر مسجد اقصیٰ کی طرف بڑھ رہے تھے تاکہ قبلہ اول میں غاصب صہیونیوں کی طرف سے لگائی گئی آگ پر قابو پا جاسکے۔
اس دوران فلسطینیوں کی فائر بریگیڈ کی گاڑیاں اور امدادی ٹیمیں بھی پہنچ گئیں مگر قابض فوج اور پولیس نے انہیں جگہ جگہ روکنے کی مذموم کوشش کی۔ تاہم اسرائیلی رکاوٹوں کے باوجود ہم مقامی وقت کے مطابق دن دس بجے آگ پرقابو پانے میں کامیاب ہوگئے۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیل نے فوری طور پربغیر کسی تحقیق کے دعویٰ کیا کہ مسجد میں آگ بجلی کے شارٹ سرکٹ کےباعث لگی ہے مگر عرب انجینیروں اور ماہرین نے صہیونی ریاست کے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دے کر کہا کہ مسجد اقصیٰ کے الیکٹرک نظام میں کوئی خرابی نہیں۔ یہ آگ لگی نہیں باقاعدہ منصوبہ بندی سے لگائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ میں آگ لگانے میں ملوث ایک صہیونی تھا جس کی شناخت ڈینس مائیکل روہان کے نام سے کی گئی اور وہ آسٹریلیا سے آیا تھا۔
مجرم نے ایسا خطرناک آتش گیر مواد خریدا جو صرف حکومتوں یا فوج کے پاس ہوسکتا ہے اور اس آتش گیر مواد سے مسجد اقصیٰ میں آگ لگائی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صہیونی ریاست اور حکومت اس سازش میں براہ راست ملوث تھی۔
اس وقت بیت المقدس کی سپریم اسلامی کمیٹی نے ایک ہنگامی اجلاس بلایا جس میں مسجد اقصٰی میں ہونے والی آتش زدگی کی تمام تر ذمہ داری قابض صہیونی ریاست پرعاید کی گئی۔
اسلامی کمیٹی نے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی بھی قائم کی اور دوسری کمیٹی مسجد کو ہونے والے نقصان کے مسالی خسارے کا تخمینہ لگانے کے لیے بنائی گئی۔
الشیخ عکرمہ صبری کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں لگائی جانے والی آگ نے بیت المقدس کے فلسطینیوں کو شدید صدمے سے دوچار کردیا تھا اور لوگ اس کیفیت کو دیکھنے کے بعد غم اور صدمے سے نڈھال تھے اور القدس میں غیراعلانیہ سوگ کا سماں تھا۔
الشیخ صبری نے کہا کہ صدمہ تمام پریشانیوں میں زیادہ تھا۔ ہم سب کے دل شدید دکھی تھے اور یہ صدمہ آج تک موجود ہے۔
مسجد اقصیٰ کو ایک پورے گروپ نے آگ لگائی۔ یہ کوئی ایک شخص نہیں تھا بلکہ مجرموں کا ایک ٹولہ تھا مگر قابض اسرائیلی پولیس نے صرف مائیکل روہان کو گرفتار کیا مگر اسے بھی بعد میں چھوڑ دیا گیا۔
اسرائیلی دشمن نے مسجد اقصیٰ کو اس لیے آگ لگائی کہ القدس کے باشندے آگ بجھانے کے لیے عالمی مدد طلب کریں گے مگر القدس کے باشندوں نے ذمہ داری اور بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی مدد آپ کے تحت آگ پر قابو پالیا۔
یہ واقعہ 21 اگست سنہ 1947 کی صبح مقامی وقت کے مطابق 6 بج کر 45 منٹ کا ہے جب آسٹریلوی نژاد یہودی دہشت گرد ڈینس مائیکل روہن نے مسجد اقصیٰ میں گھس کر اسے شہید کرنے کی مذموم اور ناقابل فراموش جسارت کا ارتکاب کیا۔ آتش گیر مادہ چھڑکنے کے ساتھ ہی مسجد کے مختلف اطراف میں آگ بھڑک اٹھی، مسجد میں موجود فرنیچر، قرآن پاک کے نسخے، اسلامی کتابیں، صلاح الدین ایوبی کے دور میں بنایا گیا مسجد کا منبر[ جو شام کےحلب شہر سے سنہ 1187ءمیں لایا گیا۔ معروف مسلمان فرمانروا سلطان نور الدین زنگی نے مسجد اقصیٰ کی صلیبیوں سے آزادی کے روز یہ منبر تیار کرایا تھا] کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔ مسجد اقصیٰ میں لگائی گئی آگ کے شعلے بیت المقدس میں دور دور سے دکھائی دے رہے تھے۔ جس جس فلسطینی تک قبلہ اول میں آتش زدگی کی اطلاع پہنچی اس نے تمام مصروفیات ترک کیں اور قبلہ وال کی راہ لی۔ ایک یہودی دہشت گرد کی ناپاک جسارت کے باعث ہرفلسطینی اشکبار اور ہر دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔
یہ بحث آج تک جاری ہے کہ کیا یہ فقط ایک یہودی دہشت گرد اور مذہبی جنونی کی سازش تھی یا اس کے پس پردہ کسی منظم گروہ کی منصوبہ بندی شامل تھی۔ قرائن یہ بتاتے ہیں کہ اگرچہ یہ کارروائی ڈینس مائیکل روہن کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوئی مگر اس طرح کی کسی بھی سنگین نوعیت کی مجرمانہ سازس کسی ایک فرد کی کارستانی نہیں بلکہ اس گھناؤنی حرکت کے پس پردہ صہیونی ریاست، انتہا پسند مذہبی اور سیاسی جماعتیں اور دنیا بھر کی یہودی لابی ملوث تھی کیونکہ قبلہ اول میں آگ لگانے کی سازش کے مرتکب کو جس طرح سزا اور قانون کی گرفت سےفاتر العقل قرار دے کر بچانے کی مذموم کوشش کی گئی اس سے یہ صاف ظاہرہوتا ہے کہ اس مجرمانہ حرکت میں اسرائیلی ریاست بالواسطہ طورپر ملوث تھی۔
صہیونی ریاست کے ملوث ہونے کے کئی اور قرائن اورشواہد موجود ہیں۔ جب قبلہ اول میں آگ لگ چکی تو فلسطینی شہری اپنی آپ کے تحت سے بجھانے میں مصروف ہوگئے مگر صہیونی انتظامیہ کی طرف سے شہری دفاع اور فائر بریگیڈ کے عملے کو قبلہ اول کی طرف آنے سے روک دیا گیا۔ جب مسجد میں دور اموی میں بنائے گئے بیشتر مقامات جل کر راکھ ہوگئے تو اس کے بعد اسرائیلی فائر بریگیڈ کا عملہ وہاں پہنچا۔ اس کے ساتھ ہی صہیونی ریاست نے عالمی اور علاقائی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کا ایک نیا حربہ استعمال کرنا شروع کردیا۔ معاملے کی فوری اور غیرجانب دارانہ تحقیقات کا اعلان کیا گیا مگر اس سازش کے مرکزی کردار کے خلاف کارروائی کے بجائے اسے بیرون ملک فرار کی اجازت دے دی گئی۔
قبلہ اول میں آتش زدگی دراصل ناپاک صہیونیوں کی مسجد اقصیٰ میں دراندازی کا نقطہ آغاز تھا۔ سنہ 2004ء میں قبلہ اول میں یہودیوں کی یلغار اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی۔ اس سال جاری کردہ اعدادو شمار میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ چار عشروں کے دوران انتہا پسند یہودی 3200 مرتبہ مسجد اقصیٰ پرحملے کرچکے ہیں۔ ان میں آتش زدگیوں، براہ راست فائرنگ اور قبلہ اول کی دیواریں کمزور کرنے کی گھناؤنی سازشیں بھی شامل ہیں۔
مسجد اقصیٰ میں آتش زدگی کا ہولناک واقعے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ یہ واقعہ اس عرصے میں پیش آٰیا جب آزاد فلسطینی ریاست اور بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت بنانے کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ اس موقع پر صہیونیوں کی جانب سے ایک نیا نعرہ ایجاد کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’یروشلم [بیت المقدس] کے بغیر اسرائیل کا کوئی وجود نہیں اور جبل ہیکل کے بغیر یروشلم کا کوئی وجود نہیں‘‘۔ جبل ہیکل سے یہودیوں کی مراد مسجد اقصیٰ ہے۔ یہاں سے صہیونیوں کی قبلہ اول پرقبضے اور اسے یہودیوں کے لیے مباح کرانے کی سازشوں کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
مگر اس سے بھی بڑا فتنہ سنہ 1916ء میں اس وقت سامنے آیا جب ترکی[خلافت عثمانیہ] اور عرب ریاستوں کی بندر بانٹ کی سازشوں کا آغاز ہوا۔ دنیا میں نئے اتحاد وجود میں آنے لگے۔ کئی مسلمان ملکوں نے برطانیہ اور دوسری مغربی طاقتوں کے ساتھ اپنا تعلق جوڑا مگر بدقسمتی سے برطانیہ عظمیٰ نے بھی عربوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو ایفاء نہیں کیا۔ بلکہ ارض فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن قرار دینے کی مذموم سازش کے لیے بالفور ڈیکلریشن کااعلان کیا گیا۔
انہی سازشوں میں سائیس ۔ پیکو معاہدہ ایک ایسی سازش تھی جس نے القدس اور مسجد اقصیٰ کی آتش زدگی کے لیے ایک نیا راستہ متعین کیا۔ اسی عرصے میں ارض فلسطین پر قابض ایک برطانوی جنرل نے طاقت کے نشے میں کہا تھا کہ آج صلیبی جنگ اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے اور ہم یہ جنگ جیت چکے ہیں۔ ایک فرانسیسی جنرل قورو نے تو صلاح الدین ایوبی کی قبر پر کھڑے ہو غیرت مسلم کو یوں للکارا کہ’’صلاح الدین اٹھ، ہم دوبارہ آگئے ہیں‘‘۔
یہ ضروری نہیں کہ جس صلیبی فوج سے صلاح الدین کی افواج کا مقابلہ ہوا وہی ایک بار پھر سامنے آئے۔ اب کی بار عالم اسلام کو صہیونی صلیبی کے زیادہ سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ کیونکہ یہ صہیونی صلیبی مجرم توراتی، تلمودی مذہبی تعلیمات کے پجاری، اسٹریٹیجک اہداف کے ماہر اور بے رحم دلوں کے مالک ہیں۔
سنہ 1948ء کی قیام اسرائیل کی جنگ صرف فلسطینیوں کے لیے ’نکبہ‘ نہیں بلکہ یہ جنگ مسجد کو شہید کرنے کی مذموم سازشوں کا تسلسل تھی جس کے 19 سال بعد یہ سانحہ عظیم رنما ہوا۔ مسجد اقصیٰ میں آتش زدگی صرف بیت المقدس یا قبلہ اول کا سانحہ نہیں بلکہ اس واقعے نے پوری اسلامی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مگر اس وقت بھی صہیونیوں کی خوئے انتقام پوری شدت کے ساتھ موجود تھی۔ جب اسرائیلی فوج کے چیف ربی جنرل شلومو قورین نے قبۃ الصخرہ میں داخل ہونے کی مذموم کوشش کرت ہوئے ایک ہاتھ میں تورات اور دوسرے میں آتشیں اسلحہ لہرا کر کہا تھا کہ مجھے مسجد اقصیٰ کے قلب سے بارود کی بو آ رہی ہے۔
اس وقت عالم اسلام ایک بار پھرخاموشی کی گہری نیند میں غرق ہے۔ ایسے لگ رہاہے کہ مسجد اقصیٰ کی آتش زدگی کے سانحے کو نصف صدی گذرنے کے بعد آج کے مسلمان اس سے بالکل فراموش کرچکے ہیں۔ سانحے کے وقت عالم اسلام اور عرب دنیا کی یکجہتی بے مثل تھی مگر اب بات صرف مخصوص نعروں تک محدود ہوچکی ہے۔
اگلے مرحلے میں جنرل شلومو قورین اور دیگر فوجی جنرل دیوار براق، المغاربہ کالونی، الشرف کالونی اور مسجد اقصیٰ سے متصل دیگر مقامات میں نہایت تکبر کے ساتھ داخل ہوئے اور دیوار براق پر اسلحے کے زور پر قبضے، مراکشی دروازے کو کھلونے کے اعلانات اور قبلہ اول کے دوسرے دخلی اور خارجی دروازوں پرقبضے کے اعلانات کیے۔ یہودی فوجی جرنیلوں کی آمد کے بعد عام یہودیوں کے لیے قبلہ اول میں داخلے اور نام نہاد مذہبی رسومات کی ادائی کی راہ ہموار ہوئی۔ آج یہودی اس سازش کو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے صرف مذہبی رسومات ہی نہیں بلکہ قبلہ اول کی زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کی سازشوں تک آ پہنچے ہیں۔
صلیبیوں اور صہیونیوں کی عالمی سازشوں نے اس وقت اسلامی دنیا بالخصوص عرب دنیا کو ایک نئی کمشکش میں ڈال دیا ہے۔ شام، عراق، مصر اور دوسرے عرب اور مسلمان ملکوں میں آگ اور خون برس رہا ہے۔ اس لیے عالم اسلام کی توجہ قبلہ اول کی طرف ماضی کی طرح نہیں رہی ہے۔
سنہ 2009ء میں جب بیت المقدس کو عرب دنیا کاثقافتی دارالحکومت قرار دیا گیا تو اسرائیل اور دنیا بھر کی صہیونی تحریکوں نے بیت المقدس کے لیے ’’اسرائیل کا ابدی دارالحکومت یروشلم‘‘ کی اصطلاح کا استعمال بڑھا دیا۔ یوں صہیونی ریاست اور عالمی صہیونی گروپ قبلہ اول کو اسرائیل کا ابدی دارالحکومت بنانےاور مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کے ہیکل سلیمانی میں تبدیل کرنے کی سازشوں کو نہ صرف جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ جس سانحے کا آغاز 21 اگست 1969ء کو ہوا اسے آگے بڑھانے میں دن رات سرگرم عمل ہے۔