جمعه 15/نوامبر/2024

قتل کی دھمکیاں اور پروپیگنڈہ : فلسطینی صحافی اسرائیل کا ہدف

بدھ 30-اکتوبر-2024

صیہونی قابض فوج نے ایک بار پھر صحافیوں کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ تازہ ترین پیش رفت میں قابض فوج نے اپنے ترجمان "اویخائی ادرعی "کے ذریعے غزہ کی پٹی میں جاری جنگ کی کوریج کے لیے کام کرنے والے فلسطینی صحافیوں کے خلاف اشتعال انگیزی شروع کردی۔

اس کارروائی کا مقصد صحافیوں کو ڈرانا اور غزہ کی پٹی میں بڑھتے ہوئے اسرائیلی جرائم کی کوریج سے روکنا ہے۔

غزہ میں جاری صہیونی جارحیت کے بعد سے میدان میں کام کرنے والے صحافی زندگی کو لاحق بہت سے خطرات کے درمیان گھرے ہوئے ہیں جن کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ مگر وہ اب بھی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان جنگ کی پیشرفت دنیا کے سامنے لا رہے ہیں، جو کہ دوسرے سال میں داخل ہوتے ہی شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ تاہم، قابض اسرائیل کے لیے یہ سوہان روح بن گیا ہے۔

حالیہ پیش رفت میں ، اسرائیلی فوج کے ترجمان نے غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے چھ فلسطینی صحافیوں کی تصویر شائع کی جو الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک کے ساتھ کام کرتے ہیں، اور انہیں "دہشت گرد  قرار دیا جو حماس اور اسلامی جہاد تحریکوں  کے لیے کام کرتے ہیں” ۔ اس کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے بعض غیر منطقی ، مضحکہ خیز اور جھوٹ پر مبنی شواہد کا ایک مجموعہ پیش کیا۔

یہ چھ صحافی، جو سبھی الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک کے ساتھ کام کرتے ہیں، ان میں انس الشریف، علاء سلامہ، زخمی صحافی اسماعیل ابو عمر، طلال العروقی، حسن شبات، اور اشرف السراج شامل ہیں۔

اخلاقی نقصان اور قتل کا جواز پید کرنا

فلسطین سرکاری میڈیا آفس نے قابض فوج کی طرف سے فلسطینی صحافیوں کے خلاف اکسانے کی مذمت کی ہے۔ اور کہا کہ یہ "ان کے بارے میں گمراہ کن معلومات پھیلا کر انہیں اخلاقی طور پر قتل کرنے کی کوشش ہے”۔ بیان میں پریس یونینوں اور تنظیموں سے ان کی حفاظت کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

انہوں نے کل بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی قابض فوج فلسطینی صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ لوگوں کے خلاف مزید جرائم کے ارتکاب کی تیاری کے لیے راہ ہموار کرنے کی مشق کر رہی ہے اور غلط معلومات اور گمراہ کن بیانیہ پھیلا کر ان کے خلاف  رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کی اس طرح سے میڈیا کے شعبے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح اسرائیل حق کی آواز کو خاموش کرنے اور شہریوں، بچوں، خواتین اور بزرگوں کے خلاف جاری جرائم کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ جب اسرائیلی فوج نے 15 سالہ فلسطینی صحافیوں کے ایک گروپ کو فلسطینی مزاحمت کے قائدین کے طور پر پیش کیا تو اس کا بیانیہ بہت حد تک مسترد کیا گیا۔ "یہ یقینی طور پر اس نئے غیر منطقی بیانیہ کے جھوٹ کی تصدیق کرتا ہے۔”

انہوں نے صحافیوں کی یونینوں، مقامی عرب اور بین الاقوامی پریس فیڈریشنوں اور تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ صحافیوں کے خلاف غاصبانہ جرائم کی مذمت کریں اور فلسطینی صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے خلاف اشتعال انگیزی کے سلسلے کو مسترد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے انہیں تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کریں۔

انہوں نے صہیونی تسلط اور امریکی انتظامیہ کو صحافیوں کی زندگیوں کا مکمل ذمہ دار قرار دیتے ہوئے آزاد دنیا کے تمام ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ صحافیوں کو نشانہ بنانے اور نسل کشی کی جنگ بند کرنے کے لیے تمام دستیاب ذرائع سے اسرائیل پر دباؤ ڈالیں۔

میڈیا وارننگز

متعدد فلسطینی میڈیا تنظیموں نے اس اسرائیلی اشتعال انگیزی کے خلاف خبردار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یہ غزہ کی پٹی پر جاری صیہونی جنگ کی نسل کشی کی میڈیا کوریج کو منظم طریقے سے نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔

فلسطینی میڈیا فورم نے کہا کہ ہم غزہ کی پٹی میں الجزیرہ کے نامہ نگاروں کے خلاف اسرائیلی اشتعال انگیزی کو سنجیدگی سے دیکھتے ہیں اور انہیں صحافیوں کے خون میں رنگی ہوئی اسرائیلی مشین سے نشانہ بنانے کے نتائج سے خبردار کرتے ہیں۔ "

جمعرات کو ایک بیان میں، انہوں نے ان صحافیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جنہیں قابض فوج کی اشتعال انگیزی کا نشانہ بنایا گیا، اور بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی میڈیا کے تحفظ میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کریں۔

انہوں نے کہا کہ الجزیرہ کے صحافیوں کے خلاف الزامات اسرائیل کے جرائم کو بے نقاب کرنے کی ان کی زبردست کوششوں کے بعد سامنے آئے ہیں۔ اور یہ الزامات انہیں ان کے قومی اور پیشہ ورانہ کردار کی انجام دہی سے ڈرانے کی ایک مایوس کن کوشش ہے۔

تاہم سابق اسرائیلی کاروائیوں کے تناظر میں انہوں نے بین الاقوامی فیڈریشن آف جرنلسٹس اور رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی صحافیوں کو اسرائیلی نشانہ بننے سے روکنے کے لیے کام کریں۔

خاموش کرنے کی کوشش

فلسطینی مرکز برائے تحفظ صحافیان نے بھی اسے شمالی غزہ کی پٹی میں باقی رہ جانے والے چند صحافیوں کی آواز کو خاموش کرنے اور اسرائیلی مظالم حقیقت کو چھپانے کی ایک نئی کوشش قرار دیا۔

انہوں نے جمعرات کو ایک بیان میں خبردار کیا کہ یہ الزامات صحافیوں کو نشانہ بنانے کا بہانہ ہوں گے۔ دوسری طرف غزہ  میں ایک سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک 177 صحافیوں  کو ہلاک کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی انسانی قانون  مسلح تصادم میں اپنے فرائض انجام دینے والے سویلین صحافیوں کے احترام اور تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔

کچھ نیا نہیں… اعدادوشمار اور حقائق

خیال رہے کہ صحافیوں کو نشانہ بنانے کی یہ پہلی اسرائیلی کاروائی نہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک شہید ہونے والے صحافیوں کی تعداد 177 ہو چکی ہے۔

الجزیرہ کے صحافیوں نے اس کی سب سے زیادہ قیمت ادا کی ہے اور فرائض کی انجام دہی کے دوران متعدد صحافی شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔

15 دسمبر 2023 کو غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع شہر خان یونس میں ایک فضائی حملے میں الجزیرہ کے نامہ نگار سمر ابو دقہ کو شہید کر دیا گیا ، اور اس کا نامہ نگار وائل الدحدوح زخمی ہوا۔

7 جنوری 2024 کو الجزیرہ کے صحافی حمزہ وائل الدحدوح اور مصطفیٰ ثریا کو شہید کر دیا گیا۔ ایک فضائی حملے میں اس کار کو نشانہ بنایا جس میں وہ سفر کر رہے تھے۔ وہ خان یونس میں پریس کوریج کر رہے تھے۔

13 فروری 2024 کو رفح شہر پر ایک ڈرون کی بمباری کے نتیجے میں الجزیرہ کے نمائندے اسماعیل ابو عمر زخمی ہوئے۔

31 جولائی 2024 کو الجزیرہ کے نامہ نگار اسماعیل الغول اور اس کے فوٹوگرافر رامی الریفی کو غزہ شہر میں ان کی گاڑی کو نشانہ بنانے والے اسرائیلی حملے میں شہید کر دیا گیا۔

9 اکتوبر کو الجزیرہ کے فوٹوگرافر فادی الوحیدی اس وقت صہیونی فوج کی گولی سے گردن میں گولی لگنے سے زخمی ہو گئے جب ان کا عملہ شمالی غزہ کی پٹی میں جاری نسل کشی کے واقعات کی کوریج کر رہا تھا۔

قابض فوج نے خود کو صحافیوں کو نشانہ بنانے تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کے اہل خانہ کو بھی نشانہ بنایا۔ 11 دسمبر 2024 کو صہیونی فوج نے صحافی انس الشریف کے گھر پر بمباری کی جس میں ان کے والد شہید ہوگئے۔ اس سے قبل اکتوبر 2023 میں صحافی وائل الدحدوح کی اہلیہ، بیٹے، بیٹی اور پوتی کی شہادت ایک حملے میں ہوئی تھی جس غزہ کی پٹی کے وسط میں ان کے گھر کو نشانہ بنایا گیاگیا۔ جب کہ وہ کئی ہفتوں بعد زخمی ہوئے۔ 7 جنوری 2024 کو ان کے بیٹے کو شہید کیا گیا۔

کوریج جاری ہے

اگرچہ صحافیوں کو نشانہ بنانے کے لیے یہ اسرائیلی پروپیگنڈہ جاری ہے، لیکن یہ تمام صحافی بہادری سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔  

فلسطینی میڈیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو  یہ محسوس ہوتا ہے کہ طویل عرصے سے جاری طویل تنازعات میں قابض فوج کی جانب سے آواز کو دبانے، تصویر کو دھندلا دینے اور سچائی کو چھپانے کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں، فلسطینی بیانیہ مضبوطی کے ساتھ قائم و دائم رہا ہے۔ جو فلسطینیوں کے حق کی وضاحت اور قانونی حیثیت سے قریب تر ہے، جسے مٹایا نہیں جا سکتا۔

 

مختصر لنک:

کاپی