قابض اسرائیلیفوج نے بتایا ہے کہ اگست کے دوران غزہ کی پٹی اورشمالی فلسطینی علاقوں میںفلسطینیوں کے حملوں میں کم سے کم پندرہ فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
دوسری جانباسرائیل کے عبرانی اخبار’معاریو‘ نے بتایا ہے کہ اگست کا مہینہ اسرائیلی فوج کےلیے ایک خونی مہینہ گذرا ہے۔
قابض فوج نے بیانمیں کہا ہے کہ آخری فوجی جسے غزہ میں فائرنگ سے ہلاک کیا گیا وہ میجر کے عہدے کاافسر تھا۔ اس فوجی کی ہلاکت کے بعد غزہ میں گذشتہ برس سات اکتوبر سے جاری جنگ میںہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد 704ہوگئی ہے۔
اسرائیل کےعبرانی ٹی وی چینلوں کی رپورٹس کے مطابق بریگید 16 کے ایک ہفتے کےدوران 8 فوجی ہلاکہوئے۔ ان میں سے چار غزہ میں نتساریم محور کے قریب فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملوںمیں ہلاک ہوئے۔
اسرائیلی فوج نےکہا تھا کہ اس نے سات اکتوبر کو ہلاک ہونے والے ایک فوجی کی لاش برآمد کی ہے۔
اسرائیلی وزیردفاع یوآو گیلنٹ نے کہاکہ غزہ سے سات اکتوبر کےحملے میں ہلاک ہونے والےفوجی کیلاش بازیاب کرانے سے ہمارے اس عزم کی عکاسی ہوتی ہے کہ ہم غزہ میں گرفتار کیےگئےتمام زندہ اور ہلاک فوجیوں کو واپس لائیں گے۔
اسرائیل میںسرکاری سطح پر یہ پالیسی ہے کہ جنگ میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کے بارے میں تفصیلاتصرف اس وقت ہی میڈیا پر نشر کی جا سکتی ہیں جب انہیں نشر کرنے کے لیے حکومت اجازتدے گی۔
اسرائیلی حکامفلسطینی مزاحمت کاروں کے فراہم کردہ ڈیٹا اور معلومات کو اپنے ہاں میڈیا میں نشرکرنےیا انہیں شائع کرنےکی اجازت نہیں دی جاتی۔
ماہرین کا خیالہے کہ غزہ اور فلسطین کے دوسرے محاذوں پر ہلاک ہونےوالے فوجیوں کی درست تعداد خفیہرکھنے کا مقصد فوج پر نفسیاتی دباؤ کرنا ہے۔ جانی نقصان کے حقائق جاری کیے جانے سےفوج کے حوصلے پست ہوسکتے ہیں۔ اس لیے اسرائیلی حکومت فوج میں ہونے والی ہلاکتوں کیبہت کم تعدادظاہر کرتی ہے اور فلسطینی مزاحمت کاروں کے زیادہ سے زیادہ نقصانات اوربڑھا چڑھا کر پیشے کیے جاتے ہیں۔