لبنان کے دارالحکومت بیروت کے قریب 12 اگست 1976ء کو تل زعتر پناہ گزینکیمپ پر نہتے فلسطینیوں کے وحشیانہ قتل عام کے 46 سال مکمل ہونے پر حماس نے اس واقعے کی ایک بار پھر تحقیقات کامطالبہ کیا ہے۔
اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے ترجمانجہاد طہ نے کہا ہے کہ "لبنان میں عیسائیوں کی طرف سے تل الزعتر کیمپ میں ہمارےفلسطینی عوام کے خلاف جو گھناؤنا قتل عام کیا گیا ہے اس کی شفاف تحقیقات ہر وقت کیضرورت ہے جب تک اس واقعے کی تحقیقات نہیں ہوجاتیں اور مجرموں کو سزا نہیں ہوتی ہماس کے حوالے سے آواز بلند کرتے رہیں گے۔
قدس پریس نے طحہٰ کے حوالے سے کہا ہے کہ خونریزیاور ہزاروں شہیدوں اور زخمیوں کے باوجود فلسطینی عوام اپنے مکمل حقوق پر قائم ہیں جنمیں سب سے آگے فلسطینی قومی سرزمین پر واپسی کا ان کا حق ہے۔ ان کا مزاحمتی منصوبہجو انہیں آزادی اور واپسی کی طرف لائے گا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ "یہ قتل عام اوریہ بے گناہ خون فلسطینی عوام کے آزادی اور واپسی کے راستے کو جاری رکھنے کے عزم میںاضافہ کرے گا۔
طحہ نے لبنانی ریاست سے مطالبہ کیا کہ وہ اس قتلعام کے حالات کوسامنے لائے اور اس کا ارتکاب کرنے والے مسیحی برادری کے تمامعناصر کو کٹہرے میں کھڑا کرے۔
خیال رہے کہ جنوری 1976ء کو لبنان میں خانہ جنگیکے دوران تل الزعتر پناہ گزین کیمپ کا عملی محاصرہ شروع ہوا۔ آغاز میں اس محاصرے میںلبنان کی دائیں بازوں کی ملیشیاؤں نے حصہ لیا۔ انہوں نے اپنے مخالف’النمور‘ گروپ کےخلاف حملے شروع کردیے۔ النمور گروپ کے کچھ لوگ اس کیمپ میں بھی موجود تھے مگر مخالفملیشیا کی طرف سے کیمپ کے ہزاروں باشندوں کو یرغمال بنا دیا گیا۔ النمور میشیا کمیلشمعون کے ماتحت ایک عسکری گروپ تھا۔ 20 جون کو دائیں بازو کی ملیشیاؤں نے پاشا پ اورالنبعہ کے اطراف سے کیمپ پر چڑھائی کردی۔
نمور الاحرار اور ان کے سربراہ کمیل شمعون کے علاوہبیار الجمیل کے لبنانی بریگیڈ، حرس الارز اور الشبینہ گروپ کے عناصر بھی مقامی آبادیپر چڑھائی میں شامل ہوگئے۔انہوں نے مل کر اس کیمپ کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور صہیونیفوج کے ہمرہ 55000 ہزار گولوں سے کیمپ کو خاک وخون میں ڈبو دیا گیا۔
پہلے روز قریبا 5000 گولے کیمپ پر داغے گئے جس کےنتیجے میں کیمپ کے 70 فی صد مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے۔
یکم جولائی کو فلسطینی تنظیموں نے تل الزعتر کیمپکا محاصرہ توڑنے کی کوشش کی مگر علاقائی قوتوں کی جانب سے مداخلت کے باعث فلسطینی کیمپکامحاصرہ نہ توڑ سکے البتہ کیمپ میں گولہ باری رکوا دی گئی۔
وسط جولائی کو 75 فدائی کیمپ میں داخل ہوئے اوروہ اپنے ساتھ کیمپ میں 100 ’آر پی جی‘ ٹینک شکن بم لے جانے میں کامیاب رہے۔ چونکہباہر سے حملہ آور گروپوں کی طرف سے کوئی خاص تعاون نہیں کیا گیا جس کی بنا پر کیمپکے اندر موجود مزاحمت کار بھی کوئی اہم جوابی کارروائی نہ کرسکے۔
جون میں جب کیمپ کا محاصرہ کیا گیا اس وقت کیمپکو فراہمی آب کے صرف تین ذرائع تھے۔ 14 جولائی تک پانی کی مرکزی پائپ لائن تباہ کردیگئی۔ اس کےساتھ ہی گھات لگا کرکچھ لوگوں نے پانی کی لائن ٹھیک کرنے والے 25 فلسطینیوںکو شہید کردیا۔
کیمپ میں خوراک کی قلت، صفائی ستھرائی کے فقدان،قتل عام، خون خرابے، پانی اور دیگر بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی نے قحط اور فاقہ کشیکی کیفیت پیدا کردی۔ بیماریوں نے ڈیرے ڈالے اور لوگوں کو علاج کی سہولتیں چھن جانےکے باعث شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔