شنبه 16/نوامبر/2024

اسرائیل مسجد اقصیٰ ، مسجد ابراہیمی پر قبضے کی تیاری کر رہا ہے

جمعرات 18-مارچ-2010

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل مسلسل ایسے فتنے جگاتا رہتا ہے جو فلسطینیوں کے لیے اشتعال کا باعث بنتے ہیں۔ اس ہفتے کا جگایا ہوا نیا فتنہ د و قدیم فلسطینی مساجد کا ہے جسے اس نے مبینہ طور پر یہودیوں کے مقدس مقامات قرار دیا ہے۔ یہ دونوں مساجد صدیوں سے مسلمانوں کی عبادت گاہیں رہی ہیں مگر اب ان پر اسرائیل یہودیوں کی وراثت کا دعویدار ہے ۔ ان میں ایک مسجد تو بلال ابن رباح والی مسجد ہے جسے یہودی بیت اللحم کے نزدیک رشیل کا مقبرہ قرارد یتے ہیں اور دوسراالخلیل میں واقع مسجد ابراہیمی ہے ۔ الخلیل کی مسجد وہی مقام ہے جہاں 194ء میںایک یہودی سیاح نے عرب نمازیوں کا قتل عام کیاتھا۔ یہ مسجدمکہ کرمہ میں حرم کعبہ ،مدینہ منورہ میں مسجد نبوی اور بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کے بعد بہ اعتبار فضلیت مسلمانوں کے لیے چوتھا مقدس مقام ہے ۔

اسرائیلی حکام نے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے اس فیصلے کی کوئی وضاحت نہیں کی کہ انہوںنے مسلمانوں کی دومساجد کو بھی اسرائیلی ورثے میں شامل کیاہے۔ نیتن یاہو نے صرف اتنا کہا ہے کہ ان دونوںمقامات کو نئے سرے سے آراستہ کیاجا ئے گا تاکہ اسرائیلیوں کو ان کی تاریخ سے دوبارہ وابستہ کیا جائے ۔ یہ دونوں مساجد گھنی فلسطینی آبادی کے عین وسط میں آباد جہاں اطراف میں کہیں یہودی آبادی نہیں۔ الخلیل شہر کی آبادی دو لاکھ سے اوپر ہے ۔ مزید پانچ لاکھ لوگ اطراف کے دیہات میں آباد ہیں۔ شہر کے پرانے علاقے میں 400انتہاپسند آبادکار بسائے گئے ہیں ، جن کی حفاظت پر شب و روز ہزاروں اسرائیلی فوجی مامور رہتے تھے ۔ یہ فوجی مقامی فلسطینیوں کو بالعموم ہراساں رکھتے ہیں اور پریشان کرتے ہیں تاکہ یہودی آبادکاروں کو مکمل عافیت اور خیریت کا تاثر دے سکیں ۔

مسجد ابراہیمی فلسطین کی قدیم ترین مسجد سمجھی جاتی ہے جو 635ء کے قرب و جوار میں تعمیر ہوئی ۔ مسجد بلال ابن رباح اب مسلمانوں کی حدود سے باہر ہوچکی ہے اور بیت اللحم کے شمالی کنارے پر ہے جو مکمل طور پراسرائیل میں شامل کرلیا گیاہے اور کنکریٹ کی ایک دیوار کے ذریعے عربوں کی شہری آبادی سے کاٹ کر الگ کرلیا گیاہے۔ نیتن یاھو نے جب 3 فروری کو اس منصوبے کا اعلان کیا تو اس کے منصوبے میں یہ دو مساجد شامل نہیں تھیں ۔ منصوبے میں ان مساجد کا ذکر غالباً ان مساجد کی سیاسی حساسیت کی وجہ سے نہیں کیاگیا تھا۔ لیکن بہرحال جب آبادکاروں اور ان کے حامیوں نے وزیراعظم پر دباؤ ڈالا تو وزیراعظم نے ان دونوں مساجد کو اصل منصوبے میں شامل کرلیا۔

نیتن یاہو کے اس منصوبے پر فلسطینیوں میں سخت اشتعال ہے۔ متعدد فلسطینی شہریوں میں مظاہرے ہوئے اور کہیں کہیں فلسطینیوںاور یہودیوں میں تصادم بھی ہوا۔ بجائے خود الخلیل میں اسکول کے بچوں نے گلیوں میں جلوس نکالے اور اسرائیل کی مجرمانہ حرکت کے خلاف نعرے لگائے۔ ان بچوں کے نعرے کچھ اس قسم کے تھے کہ ”یہ قاتل اور چور ہماری عبادت گاہوں پر قبضے کی فکر میں ہیں ” ۔ ہم انہیں ان عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ مسجد ابراہیم میں پچھلے چودہ سو برس سے محض نمازیں پڑھی جا رہی ہیں۔ اسرائیل کا دعویٰ کہ یہ جگہ اسرائیل کے تاریخی آثار میں شامل ہے بالکل غلط ہے یہ مسلمانوں سے انکی عبادت گاہ چھیننے والی بات ہے جو مسلمان کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ ان مساجد سے اسرائیلیوں کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔

بیت اللحم اور شہر الخلیل کی ان دو مساجد سے مسلمانوں کا تعلق دو چار سال کی بات نہیں مسلمان مساجد میں ہزاروں برسوں سے نمازیںادا کررہے ہیں۔ وہ کیسے اپنی ان عبادتگاہوں کو جن سے ان کا گہرا روحانی رشتہ ہے ، یہودیوں کا ورثہ مان لیں یہ ناممکن ہے ۔ اسرائیل کاان مساجد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان مساجد پر اسرائیل نے زبرستی قبضے کی کوشش کی اور ان کانقشہ بدلنے کی کوشش کی تو پورا عالم اسلام اٹھ کھڑا ہوا۔ اسرائیل اشتعال انگیزی لیے پورا شہر الخلیل مشتعل ہو کر بارود کی طرح بھڑک اٹھے گا۔

حماس اور دوسرے تمام فلسطینی سیاسی حلقوں نے اسرائیل کے اس اشتعال انگیز اور مجرمانہ عزم و ارادے کی سختی سے مذمت کی ہے ۔ حماس کے حکام نے پوری مسلم دنیا سے کہاہے کہ وہ اسلام کے ان مقدس اور متبرک مقامات پر اسرائیل کے مجرمانہ حملوں کو رد کرنے کے لیے ٹھوس اور با معنی موقف اختیار کریں ۔ اسرائیلی بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کو منہدم کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور اب انہوںنے شہر الخلیل میں مسجد ابراہیمی اور بیت الحم میں ایک مسجد کو مسلمانوں سے چھیننے کامنصوبہ بنایا ہے۔ اس کاواضح مطلب یہ ہے کہ اسرائیلی مسلمانوں کی نسلی تطہیر کرکے اس سرزمین کی شناخت بدلنے کا خواہاں ہے۔ مسلمان اشتعال انگیزی کے مقابلے میں قطعاً خاموش نہیں رہیں گے ۔

حماس کے وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اسرائیلی وزیراعظم کا یہ پختہ فیصلہ کہ دونوں مساجد کو اسرائیل میں ضم کرکے یہودیوں کے تاریخی آثار میں بدل دے گا ظاہرہے کہ اسرائیل فلسطینیوں سے معاہدہ امن کے معاملے میں قطعاً مخلص نہیں ہے بلکہ وہ بجائے خود فلسطین کو تحلیل کرکے فلسطین کے قومی موقف ہی کو ختم کردینے کے درپے ہے ۔ بالکل اسی موقف کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے ایک ذمہ دار فرد صائب اریکات نے اسرائیلی فیصلے کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ اسرائیل قابض قوت ہے وہ امن کی کوششوں کا شراکت دار نہیں ہے۔

شہر الخلیل اور بیت اللحم کو اسرائیل کے حصے باور کرانے کامطلب ہی یہ ہے کہ اسرائیل امن کا شراکت دار نہیں بلکہ ایک قابض قوت ہے اور وہ فلسطین پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کاخواہاں ہے ۔ متعدد عرب اور مسلم ممالک نیز تنظیم اسلامی کانفرنس اور اردن نے اسرائیل پر الزام عائد کیاہے کہ وہ امن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے اقدامات کررہاہے ۔ اردنی وزیراطلاعات نبیل شریف نے کہاکہ اردن اسرائیل کے ایسے تمام یکطرفہ اقدامات کی مذمت کرتاہے جو مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کومتاثر کرکے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی دو قدیم مساجد کو اسرائیلی ورثے میں شامل کرنے کے فیصلے کی مذمت کی ہے اوراسرائیل کو متنبہ کیاہے کہ جن دو مساجدکو وہ اسرائیلی ورثہ قرار دے رہاہے ، وہ دونوں مغربی عرب حصے میں واقع ہیں ۔

یہ تازہ اشتعال انگیز اسرائیلی فیصلہ اس واقعے کے 16 سال بعد سامنے آیا ہے جب ایک امریکی صہیونی دہشت گرد بارچ گولڈ اسٹین نے جو امریکاکا ریزروفوجی تھا ، مسجد ابراہیمی کے مسلمان نمازیوں پر اپنی مشین گن سے فائرنگ کرکے 29 نمازیوں کو شہید اور دوسرے درجنوں نمازیوں کو زخمی کردیاتھا۔ ایک اسرائیلی کمیشن نے اس قتل عام کی تحقیقات کے بعد مسجدابراہیمی کو مسلمانوں اور صہیونی یہودیوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ کرکے مسجد کا غالب حصہ یہودیوں کو دے دیاتھا۔

اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف اور بہت سے ظالمانہ اقدامات کیے ، بہت سی سڑکیں بند کردیں اور پرانے علاقے کو شہر سے کاٹ کر علیحدہ کردیا گیا۔ یہ تمام اقدامات اس نقطہ ء نظر سے کیے گئے کہ فلسطینیوں کے لیے شہر میں زندگی گزارنا دوبھر ہوجائے اور وہ علاقہ چھوڑ کر کہیںاور چلے جائیں اور یہودی آبادکاران کے گھروں پر قابض ہوجائیں ۔ گولڈ اسٹین کوحملے کے بعد مسلمانوں نے مشتعل ہو کر قتل کرلیا تھا۔ لاکھوں اسرائیلی یہودیوں نے بے گناہ مسلمانوں کے اس قاتل یہودی کوایک ہیرو اور عظیم ربی کا درجہ دیا۔ اس کی قبر پر اب بھی ہزاروں یہودی آتے ہیں۔

اسرائیلی عزائم کے معاملے میں عالم اسلام میں مکمل لا علمی اور بے حسی پائی جاتی ہے۔ مسلمانوں کو احساس ہی نہیں کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ اور مسجد ابراہیمی کے بارے میں کیا عزائم رکھتاہے ۔ اسرائیل کے مذموم عرائم کا سدباب پورے عالم اسلام کی ذمہ داری ہے ۔ چنانچہ مسلمانوں کواسرائیل کے بارے میں زیادہ باخبر اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور اسرائیلی عزائم کو ناکام بنانے کی ایک اجتماعی مشترکہ پالیسی وضع کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ بہتر ہوگاکہ سعودی عرب عالم اسلام کو اس مسئلے پر اکٹھا کرکے لائحہ عمل طے کرے اور مسلمان اجتماعی طورپر اسرائیل کو متنبہ کرکے اسے اس کے مذموم عزائم سے بازرکھیں۔ پاکستان ، انڈو نیشیا اور ایران کو بھی اس معاملے میں فعال کردارادا کرنا چاہیے۔

بشکریہ روزنامہ اسلام

 

لینک کوتاه:

کپی شد