ترکیہ کے صدر رجبطیب ایردوآن اتوار کے روز ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں اپنی کامیابیکے باضابطہ اعلان سے چند قدم کی دوری پرہیں۔
سرکاری خبر رساں ایجنسیاناطولو کے مطابق دوسرے مرحلے میں 97 فی صد بیلٹ بکس کھلنے کے بعد ایردوآن نے 52.1فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں اور ان کے حریف کمال کلیچ داراوغلو کے حق میں 47.9 فیصد ووٹڈالے گئے ہیں۔حزب اختلاف کی خبر رساں ایجنسی انکا کے اعداد و شمار کے مطابق انھیں93 فی صد بیلٹ بکسوں کی گنتی کے بعد برتری حاصل ہے۔
ترکیہ کے ہائی الیکشنبورڈ کے سربراہ نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ایردوآن 54.47 فی صد ووٹوں کی حمایتکے ساتھ اپنے حریف کمال کلیچ داراوغلو سے آگے ہیں۔
صدرایردوآن کی حکمراںجماعت آق کے ترجمان عمر چیلک نے الگ سے ایک بیان میں کہا کہ صدر اپنی مضبوط حمایت برقراررکھے ہوئے ہیں۔
اس فتح سے طیب ایردوآنکے دو دہائیوں پر محیط دور حکومت میں توسیع ہو گی اور وہ اپنی بڑھتی ہوئی مطلق العنانحکومت کو جاری رکھنے کا مینڈیٹ حاصل کریں گے۔اس نے ترکیہ میں ایک حد تک تقسیم پیداکی لیکن علاقائی فوجی طاقت کے طور پر اس کی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔
ساڑھے آٹھ کروڑ کیآبادی والے نیٹو کے رکن ملک ترکیہ میں داخلی، اقتصادی، سلامتی اور خارجہ پالیسی کواز سرِنو ترتیب دینے کے بعد، یہ فتح صدرایردوآن کے ناقابل تسخیر تشخص کو تقویت دے گی۔
ملک کو زیادہ جمہوریاور تعاون کی راہ پر گامزن کرنے کا وعدہ کرنے والے کلیچ داراوغلو کی شکست پر ماسکومیں خوشی کا اظہار کیا جائے گا لیکن ترکیہ کی جانب سے خارجہ امور میں زیادہ محاذ آرائیاور آزادانہ مؤقف اختیار کرنے کے بعد مغربی دارالحکومتوں اور مشرق اوسط کے بیشتر حصوںمیں سوگ کی کیفیت ہوسکتی ہے۔
دو دہائیوں سے زیادہعرصے سے ترکیہ پر حکمران طیب ایردوآن اپنی غیر روایتی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہونےوالے بحران اور کرنسی کے بحران کے باوجود پانچ سال کا نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کی راہپر گامزن نظر آئے ہیں جبکہ حزب اختلاف نے ان کی جیت کو تسلسل کو روک لگانے کا وعدہکیا تھا۔
تجزیہ کاروں نے ووٹنگکے بعد مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کی پیشین گوئی کی ہے جبکہ کچھ لوگوں نے انتخابات کو اسبات کا امتحان قرار دیا تھا کہ آیا ایسے مطلق العنان رہنما کو پرامن طریقے سے ہٹایاجا سکتا ہے یا نہیں۔تاہم 14 مئی کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے سے قبلرجب طیب ایردوان نے کہا تھا کہ وہ جمہوریت کا احترام کرتے ہیں اور آمرہونے سے انکارکرتے ہیں۔
واضح رہے کہ 14 مئیکو ترکیہ میں منعقدہ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ان دونوں میں سے کوئی بھی امیدوارجیت کے لیے درکار50 فی صد ووٹ نہیں لے سکا تھا۔