اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کی مسلح ونگ القسام بریگیڈز کے ایک سینئر رہنما نے غزہ میں قید اسرائیلی فوجیوں کے انجام کے حوالے سے کچھ نئے اور سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔
القسام بریگیڈز 2014ء میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دوران اغوا کئے جانے والے اسرائیلی فوجیوں کے حوالے سے معلومات کو انتہائی راز میں رکھتی ہے مگر حال ہی میں بین الاقوامی ٹی وی چینل الجزیرہ کی ویب سائٹ الجزیرہ نیٹ کو دئیے جانے والے ایک انٹرویو میں اسرائیلی فوجیوں کے مقدر کے حوالے سے مبہم سے جوابات دئیے ہیں۔
ابو عطار نے ویب سائٹ کو بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے جنگ کے دوران ہینیبل ڈائریکٹو کو اختیار کرنے کے باوجود کئی فوجیوں اور افسران کو چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ اسرائیلی فوج کے ہینیبل ڈائریکٹو کے تحت اغوا ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کے باوجود اغوا کاروں پر مغویوں کی پرواہ کئے بغیر فائرنگ کی جائے تاکہ اگر مغوی ہلاک بھی ہوجائے تو اسے قیدیوں کے تبادلے کے لئے استعمال نہ کیا جاسکے۔
ابو عطار کے مطابق اسرائیلی فوج نے ان فوجیوں کی تلاش میں وقت صرف کرنے کی بجائے سب سے آسان راستہ اختیار کرتے ہوئے ان فوجیوں کو ہلاک قرار دے دیا۔
ابو عطار کا کہنا تھا "اس موقع پر اسرائیلی فوجی افسر ہدار گولدن کا واقعہ دیکھیں، جس میں ہینیبل ڈائریکٹو کا استعمال کیا گیا۔ اس عمل سے اس فوجی کے مقدر کے حوالے سے معلوم کرنا مشکل ہوگیا ہے اور دشمن کو یہ بالکل علم نہیں ہے کہ وہ زندہ ہے یا مردہ؟”
ان مزید کہنا تھا کہ "تو اسرائیل ایسے موقع پر فوجیوں کے خاندان کے ساتھ جھوٹ بولتے ہوئے ان کے رشتہ داروں کو اطلاع دیتے ہیں کہ وہ مرچکا ہے۔” انہوں نے اسرائیلی فوجی شائول ایرون کے حوالے سے بھی بیان کیا کہ اسرائیل اس کے انجام کے حوالے سے مخمصے کا شکار ہے۔
"اسرائیلی کے فوجی کیرئیر کا معائنہ کرنے کے بعد یہ واضح ہوگیا تھا کہ اس میں خون یا کوئی بھی دیگر ایسا ثبوت نہیں ملا ہے جس سے فوجی کی ہلاکت کی تصدیق ہوسکے۔ مگر اس کے باوجود اسرائیلی فوج اور حکومت نے اس فوجی کو ہلاک قرار دے دیا۔”