جمعه 15/نوامبر/2024

فلسطینی اتھارٹی کی پولیس صحافیوں کے جبری اغواء اور گم شدگی میں ملوث

جمعرات 27-اکتوبر-2016

فلسطین میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے الزام عاید کیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام سیکیورٹی ادارے صحافیوں کو جبری اغواء کے بعد انہیں خفیہ حراستی مراکز میں اذیتوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ عباس ملیشیا نے کئی روز قبل ایک فلسطینی صحافی کو اس کے گھر سے اغواء کیا جس کے بعد اس کا کوئی پتا نہیں چل سکا ہے۔ مغوی فلسطینی صحافی کی والدہ اور دیگر اہل خانہ سخت غم سے نڈھال ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق غرب اردن میں پریس کلب کی جانب سے 28 سالہ محمود مطر کی والدہ کا ایک بیان نقل کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کو پانچ روز قبل عباس ملیشیا نے گھر سے اٹھا لیا تھا جس کے بعد اس کا کوئی پتا نہیں چل سکا ہے۔

دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ عباس ملیشیا کی کارروائیوں میں صحافیوں کی گم شدگیوں کے واقعات انتہائی تشویشناک ہیں۔ انسانی حقوق گروپوں کا کہنا ہے فلسطینی اتھارٹی کی پولیس ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت صحافیوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنا رہی ہے۔

مغوی صحافی محمود کی والدہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بھی بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ بیٹے کے اغواء کے بعد کئی روز سے پورا خاندان غم سے نڈھال ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عباس ملیشیا نے اس کے بیٹے کو اغواء کے وقت اپنی شناخت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا تعلق جنین شہر کے انٹیلی جنس شعبے سے ہے۔ وہ مسلسل پانچ روز سے مغوی بیٹے کے بارے میں عباس ملیشیا کے تمام سیکیورٹی اداروں سے رابطے کی کوشش میں ہیں مگر انہیں بیٹے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی پولیس ماضی میں بھی صحافی محمود مطر کو حراست میں لے کر تشدد کا نشانہ بنا چکی ہے۔ پچھلی بار مطر کو 32 دن تک مسلسل حراست میں رکھا گیا تھا جہاں اسے ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

مختصر لنک:

کاپی