سه شنبه 03/دسامبر/2024

سیاسی گرفتاریوں کے ذریعے مزاحمتی عمل کمزور کرنے کے اسرائیلی حربے

منگل 13-اگست-2024

حالیہ دنوں میں مقبوضہ مغربی کنارے میں مزاحمتی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی سروسز کی طرف سے مزاحمت پر عائد پابندیوں پر عمل درآمد کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے لیے سیاسی گرفتاری اور مزاحمتی کارروائیوں کو آغاز سے ہی ختم کیا جارہا ہے ۔ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے نسل کشی جاری  ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین نے پیر کو اپنی خصوصی رپورٹ میں بتایا کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مغربی کنارے میں 28 مزاحمتی کارروائیوں کی اطلاعات سامنے آئیں۔

مرکز اطلاعات فلسطین نے اپنی رپورٹ میں وضاحت کی کہ اس نے پانچ شوٹنگ آپریشنز اور مسلح جھڑپوں کو ریکارڈ کیا۔ چار دھماکہ خیز آلات کے دھماکے، مولوٹوف کاک ٹیل اور پٹاخے پھینکنے کی دو کارروائیاں کی گئیں۔  آباد کاروں کے حملے بھی دیکھنے میں آئے۔ دو گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔

مرکز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مغربی کنارے میں 11 الگ الگ مقامات پر نوجوانوں اور قابض افواج کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ اسرائیل کے جرائم کی مذمت میں دو مظاہرے بھی ہوئے۔

قابض فوج کے عسکری ذرائع  نے کہا ہے کہ مغربی کنارے میں گذشتہ برسوں کے مقابلے میں 2023 کے دوران شوٹنگ کی کارروائیوں میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ فوج نے 2021 میں لگ بھگ 50 شوٹنگ آپریشنز اور 2023 میں اسی طرح کے 350 واقعات ریکارڈ کیے تھے۔ فلسطینی مرکز برائے پالیسی ریسرچ کی طرف سے تیار کردہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 58 فیصد سے زیادہ فلسطینی اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور موجودہ سیاسی تعطل کو توڑنے کے لیے مسلح کارروائی کی حمایت کرتے ہیں۔

سات اکتوبر 2023 کو آپریشن "طوفان الاقصٰی” کے بعد مغربی کنارے میں مسلح بریگیڈیز کا دائرہ وسیع ہوا اور نوجوان عسکریت پسندوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینیوں کے قتل کی کارروائیوں اور ان کی گرفتاریوں میں تیزی کے باوجود مزاحمتی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا۔

فلسطین کے مرکزی ادارہ شماریات کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں شہداء کی تعداد 620 فلسطینیوں تک پہنچ گئی۔ ان شہدا میں 75 فیصد نوجوان اور بچے شامل تھے۔ گذشتہ چند دنوں کے دوران اتھارٹی کی سکیورٹی سروسز کی طرف سے سیاسی گرفتاریوں میں اضافہ کیا گیا۔ خاص طور پر شمالی مغربی کنارے کے علاقے نابلس میں تہران میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد گرفتاریاں زیادہ کی گئی ہیں۔

ادارہ نے کہا  کہ ہمارے پاس دس افراد کی فہرست ہے جنہیں پریوینٹیو سکیورٹی سروس نے خاص طور پر گرفتار کیا تھا۔ ان افراد پر اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت کے لیے مظاہروں میں فعال شرکت کا الزام لگایا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ اسرائیل کے خلاف ہدایت کی جانے والی ہر کارروائی، چاہے وہ فوجی مزاحمت ہو، اٹھنے کا مطالبہ ہو، مظاہرے میں نکلنا ہو یا کوئی اور چیز، فلسطینی سکیورٹی کی طرف سے گرفتاری کر لی جاتی ہے۔

سیاسی گرفتاری سے زیادہ خطرناک چیز مزاحمتی جنگجوؤں کا تعاقب کرنا، گولی مارنا اور گرفتار کرنا ہے۔ دو روز قبل نابلس شہر میں ایسا ہی کیا گیا۔

اسماعیل عوکل، جن کا تعاقب قابض افواج کے ذریعے کیا جا رہا تھا، گزشتہ جمعرات کو نابلس کے پرانے شہر میں اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز کی طرف سے چلائی گئی گولیوں سے زخمی ہو گئے۔ تصاویر میں زخمی شخص کو گھسیٹنے کے عمل کے دوران طویل فاصلے تک زمین پر خون کے دھبے نظر آئے۔

عینی شاہدین میں سے ایک نے بتایا کہ عوکل کو شبہ تھا کہ شہری لباس میں ملبوس مسلح افراد اس کے قریب آرہے ہیں۔ انہوں نے پہلی نظر میں یہ سمجھا کہ وہ عرب مسلح افراد قابض افواج کا پیچھا کر رہے ہیں لیکن ان میں سے ایک نے عوکل کو گھیرنے سے پہلے ہی تھوڑی دور سے فائرنگ کردی اور پھر عوکل کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔ ان مسلح افراد کا تعلق فلسطینی پریوینٹیو سیکیورٹی سروس سے تھا۔

پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین نے بتایا کہ 28 سال کے عوکل کو کئی مرتبہ گرفتار کیا جا چکا ہے۔  عوکل کو اپنی حالت کے لیے خصوصی دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ وہ عام طور پر دل کے پٹھوں کی کمزوری کا شکار ہیں۔ بچپن میں ایک اسرائیلی فوجی جیپ سے ٹکرا کر وہ زخمی ہو گئے  تھے اور زخموں کی وجہ سے اب تک بیمار ہیں۔

گذشتہ مہینوں میں حکام نے اسرائیل کے خلاف بات کرنے والے کئی افراد کو گرفتار کرنے کی کوشش کی ہے۔ طولکرم میں محمد ابو شجاع کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ احمد ابو دواس کو بھی گرفتار کیا گیا وہ طوباس بریگیڈ کے ایک رکن تھے۔ ان کا تعاقب اسرائیلی فوج کر رہی تھی۔

سکیورٹی پراسیکیوشن کی رفتار قابض اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کارروائیوں کی تعداد اور نوعیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ  بڑھتی ہیں اور مزاحمتی کارروائی میں کمی کے ساتھ کم ہو جاتی ہیں۔ طوباس کے ایک مصنف نے کہا کہ موجودہ مرحلے میں قابض افواج کو نشانہ بنانے کے مختلف طریقوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ براہ راست فائرنگ، دھماکہ خیز آلات نصب کرنے اور گاڑیوں کو بوبی ٹریپ کرنے کے طریقے سامنے آئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اتھارٹی کی سکیورٹی سروسز کی طرف سے مزاحمت پر ظلم و ستم مزاحمت کو ایک تنگ دائرے میں کام کرنے پر مجبور کر  رہا ہے۔  فلسطینی اتھارٹی کا ظلم وستم اسرائیل کو ستانے سے زیادہ مشکل ہیں کیونکہ یہ بٹالین کی نقل و حرکت کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں اور سڑکیں کاٹ دیتے ہیں۔

مغربی کنارے میں مزاحمت کی طرف سے منصوبہ بندی کی گئی بہت سی کارروائیوں کو ناکام بنانے اور انہیں ناکام بنانے کے واقعات میں حال ہی میں اضافہ ہوا ہے۔ مختلف ذرائع سے خاص طور پر ان کارروائیوں کے منصوبہ سازوں یا عمل کرنے والوں کی گرفتاری کی گئی ہے۔

اتھارٹی کی سکیورٹی سروسز مزاحمتی جنگجوؤں کی طرف سے اسرائیلی قابض افواج کے لیے رکھے گئے گھریلو ساختہ دھماکہ خیز آلات نصب کرنے کے مقامات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے انجینئرنگ یونٹ سے خصوصی ٹیمیں بھیج رہے ہیں۔ ان دھماکہ خیز آلات کو بازیافت کیا جاتا اور ناکارہ بنایا جاتا ہے۔ ان آلات کو پھر خالی زمینوں میں دھماکہ کرنے کے لیے کام میں لایا جاتا ہے۔

وکیل ابراہیم العامر نے تصدیق کی ہے کہ غزہ پر جنگ شروع ہونے کے بعد سے سیاسی گرفتاریاں نہیں رکی ہیں۔ بہت سی معاملات میں سکیورٹی وجوہات کو بیان کیا جاتا ہے تو گرفتار افراد کی رہائی کے عدالتی فیصلے بھی نافذ نہیں کیے جا سکتے۔ انہوں نے پریس بیانات میں کہا ہے کہ بعض اوقات رہائی کے فیصلے حقیقی جواز یا ٹھوس قانونی جواز کے بغیر منسوخ کر دیے جاتے ہیں۔

ابراہیم العامر بتاتے ہیں کہ گرفتاری کی اصل وجہ کا تعین کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ تفتیش بنیادی طور پر مخصوص سیاسی مسائل کے گرد گھومتی ہے  لیکن عدالت اور عدلیہ میں ان پر مختلف الزامات لگائے جاتے ہیں جو قانونی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ان الزامات پر کوئی حقیقی ثبوت پیش نہیں کیے جاتے۔ 

مختصر لنک:

کاپی